تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی حاکم و امیر وغیرہ غلط فیصلہ کرے تو وہ فیصلہ مردود قرار پائے گا، اس لیے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے شرعی امیر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا فیصلہ اور حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تائید فرمائی۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی عظمت کردار اور استقامت دین کے ساتھ ان کا دین پرسختی سے عمل پیرا ہونے کا حقیقی جذبہ بھی معلوم ہوا، نیز یہ بھی واضح ہوا کہ دینی معاملات میں آپ نہایت جرأت مند تھے۔
(3) یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے کے لیے بھی نص صریح کی حیثیت رکھتی ہے کہ خالق کی معصیت کرتے ہوئے، مخلوق میں سے کسی بھی بڑی سے بڑی شخصیت کی اطاعت کرنا اور اس کی بات ماننا حرام اور ناجائز ہے۔
(4) کافر مسلمان کو صابی کہتے تھے۔ اس کے معنی ہیں: اپنے دین سے نکل جانے والا۔ وہ اس سے بے دین مراد لیتے تھے۔ صبأنا اسی سے ہے۔ بنو جزیمہ کا مقصود تو یہ تھا کہ ہم اپنے آبائی دین سے نکل کر مسلمان ہو چکے ہیں مگر انہوں نے وہ لفظ استعمال کیا جو کفار طنزاً مسلمانوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اسی سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو غلط فہمی ہوئی کہ شاید یہ اپنے کفر پر قائم ہیں اور ہمیں طنز کر رہے ہیں حالانکہ یہ بات نہیں تھی۔ حضرت خالد نے تادیبی کاروائی شروع کردی۔ چونکہ یہ ان کی اجتہادی غلطی تھی، اس لیے رسول اللہ علیہ وسلم نے صرف براءت کے اظہار پر اکتفا کیا اور انہیں کوئی سزا نہیں دی۔