تشریح:
(1) تبرک کی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ (دیکھیے، حدیث: ۷۰۲)
(2) ”حصیر“ کھجور کی چٹائی کو کہتے ہیں۔ اس پر پانی ڈالنا صفائی یا نرم کرنے کے لیے تھا۔
(3) باب کا مقصد یہ ہے کہ زمین پر نماز پڑھنا ضروری نہیں اور نہ ماتھے کو مٹی کا لگنا ہی شرط ہے جیسا کہ بعض صوفیوں کا خیال ہے بلکہ کسی بھی مطمئن اور پاک چیز پر نماز پڑھی جا سکتی ہے، وہ کپڑا ہو یا لکڑی، پتے ہوں یا چمڑا جیسا کہ آئنندہ روایات سے بھی ثابت ہوتا ہے۔
(4) سورۂ بنی اسرائیل، آیت: ۸ میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا) ”اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنایا ہے۔“ اس میں حصیر سے مراد قید خانہ ہے نہ کہ وہ چٹائی جو نماز کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ گویا اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید بھی ہوتی ہے جو چٹائی وغیرہ کو نماز کے لیے مکروہ سمجھتے ہیں۔ مزید برپں یہ کہ ممکن ہے امام صاحب اس قسم کی روایات سے جن میں چٹائی پر نماز پڑھنے کی مشروعیت ہے، اس روایت کے ضعف یا شذوذ کی طرف اشارہ کر رہے ہوں جس میں اس کے استعمال کی نفی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ، شرح سنن النسائي: ۲۷۲/۹)