تشریح:
(1) آپ کے پاس وحی کس حالت میں آتی ہے؟ اس سوال میں تین چیزیں آ جاتی ہیں: (۱) نفس وحی کی کیفیت (۲) حامل وحی حضرت جبرائیل علیہ السلام کی کیفیت (۳) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت۔ جواب میں ان تینوں چیزوں کی وضاحت ہے۔ اس حدیث میں وحی کی دو صورتوں کو بیان کیا گیا ہے جو عام طور پر آپ کو پیش آتی تھیں۔ اس کے علاوہ بھی وحی کی مختلف صورتیں ہیں۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے وحی کے ساتھ مراتب ذکر کیے ہیں: (۱) سچے خواب آنا۔ ان سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا ہوئی۔ آپ جو کچھ خواب میں دیکھتے بیداری کی صورت میں ویسے ہی ہو جاتا تھا۔ (۲) فرشتے کا نظر آئے بغیر ہی کوئی چیز دل میں ڈال دینا جیسا کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اراشاد ہے: [إنَّ روحَ القدسِ نفثَ في رَوعي………] ”بے شک روح القدس (جبریل امین) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی۔“ (سلسلة الأحادیث الصحیحة: ۸۶۵/۶، حدیث: ۲۸۶۶) (۳) فرشتے کا انسانی شکل میں آپ پر وحی لانا جس کا مذکورہ حدیث میں بھی ذکر ہے۔ ایسے مواقع پر حضرت جبرئیل علیہ السلام عموما مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں آتے تھے۔ بعض دفعہ کسی دوسرے انسان کی شکل میں بھی آ جاتے تھے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک اجنبی کی صورت میں آئے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: ۸) (۴) کبھی گھنٹی کی طرح آواز آتی اور وحی کا نزول شروع ہو جاتا تھا۔ اس کا بیان بھی مذکورہ حدیث میں ہوا ہے۔ (۵) فرشتے کا اصلی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لانا۔ اس طرح آپ پر دو مرتبہ وحی ہوئی۔ (۶) آسمانوں پر اللہ تعالیٰ سے براہِ راست پس پردہ ہم کلام ہونا جیسے معراج کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے اور آپ کو پچاس نمازوں کا ہدیہ ملا جو کم ہوتے ہوتے پانچ نمازیں مقرر ہوئیں۔ (۷) فرشتے کے واسطے کے بغیر براہِ راست اللہ تعالیٰ کا پس پردہ ہم کلام ہونا جیسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا: ﴿وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا﴾ (النساء: ۱۶۴:۴) کوئی بشر اللہ تعالیٰ سے روبرو ہوکر کلام نہیں کرسکتا۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ﴾ (الشوری: ۵۱:۴۲) ”کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ سے (روبرو ہوکر) بات کرے مگر دل میں القا کرکے یا پردے کے پیچھے سے۔“ (زاد المعاد: ۸۰-۷۸/۱)
(2) ”گھنٹی جیسی آواز“ یہ وحی کی آواز ہوتی تھی جسے سمجھنا کافی مشکل تھا کیونکہ گھنٹی جیسی آواز سے الفاظ کو سمجھنا کافی توجہ کا متقاضی ہوتا ہے اور ان کے سمجھنے میں بڑی دقت ہوتی ہے، لہٰذا انھیں سمجھنے کے لیے کافی زیادہ مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ بعض علماء نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ فرشتہ وحی لاتے وقت اپنے پروں کو پھڑپھڑاتا تھا، اس سے یہ آواز پیدا ہوتی تھی۔ اور بعض اہل علم نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یہاں تشبیہ آواز کے ترنم میں نہیں بلکہ اس کے تسلسل اور قوت میں ہے کہ جس طرح گھنٹی کی آواز مسلسل اورشدت سے ظاہر ہوتی ہے اور کسی جگہ ٹوٹتی نہیں، اسی طرح وحی کی آواز بھی مسلسل شدید ہوتی تھی۔ مزید دیکھیے: (ذخیرہ العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۵۵/۱۲) اس صورت میں چونکہ فرشتہ آپ کو نظر نہیں آتا تھا بلکہ براہ راست دل پر القا ہوتا تھا، اس لیے یہ آپ کے لیے شدت اور ثقل کا سبب تھا۔ واللہ أعلم۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ پر سخت سردی کے دن میں وحی نازل ہوتی۔ جب وحی کا سلسلہ ختم ہو جاتا تو آپ کی پیشانی پسینے سے شرابور ہوچکی ہوتی تھی۔ (صحیح البخاري، بدء الوحي، حدیث: ۲) شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے مطابق وحی کے وقت آپ کے کان اور آنکھیں خارج سے بند ہو جاتے تھے۔ نہ آپ کو کچھ نظر آتا تھا، نہ کوئی اور آواز سنائی دیتی تھی تاکہ وحی میں دخل اندازی نہ ہو، توجہ ادھر ادھر منعطف نہ ہو۔ یہ آواز دراصل کان بند ہونے کی وجہ سے ہوتی تھی، اس لیے یہ آواز ساری وحی کے دوران میں قائم رہتی ہوگی۔