Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Interceding For (Someone To Be Given) Charity)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2556.
حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے، نبیﷺ نے فرمایا: ”سفارش کرو۔ تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے نبیﷺ کی زبانی جو چاہے گا، فیصلہ فرمائے گا۔“
تشریح:
(1) ”سفارش کرو۔“ یعنی جب کوئی حاجت مند مانگنے آئے تو تم اس کے حق میں سفارش کر دیا کرو۔ (2) ”تمہاری سفارش قبول ہوگی۔“ اگر وہ قابل تسلیم ہوئی، یا مطلب ہے کہ تمہیں سفارش کا ثواب ملے گا جیسا کہ ایک دوسری روایت میں اس مفہوم کی صراحت ہے: [اِشْفَعُوا تُؤْجَرُوا](صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: ۱۴۳۲، وصحیح مسلم، البروالصلة، حدیث: ۲۶۲۷) یعنی معنیٰ زیادہ مناسب ہیں۔ (3) ”فیصلہ فرمائے گا۔“ یعنی فیصلہ تو نبیﷺ کے ہاتھ میں ہے جو وہ الہٰی تعلیمات کی روشنی میں فرمائیں گے۔ تم سفارش کر کے ثواب حاصل کر لیا کرو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2557
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2555
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2557
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے، نبیﷺ نے فرمایا: ”سفارش کرو۔ تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے نبیﷺ کی زبانی جو چاہے گا، فیصلہ فرمائے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”سفارش کرو۔“ یعنی جب کوئی حاجت مند مانگنے آئے تو تم اس کے حق میں سفارش کر دیا کرو۔ (2) ”تمہاری سفارش قبول ہوگی۔“ اگر وہ قابل تسلیم ہوئی، یا مطلب ہے کہ تمہیں سفارش کا ثواب ملے گا جیسا کہ ایک دوسری روایت میں اس مفہوم کی صراحت ہے: [اِشْفَعُوا تُؤْجَرُوا](صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: ۱۴۳۲، وصحیح مسلم، البروالصلة، حدیث: ۲۶۲۷) یعنی معنیٰ زیادہ مناسب ہیں۔ (3) ”فیصلہ فرمائے گا۔“ یعنی فیصلہ تو نبیﷺ کے ہاتھ میں ہے جو وہ الہٰی تعلیمات کی روشنی میں فرمائیں گے۔ تم سفارش کر کے ثواب حاصل کر لیا کرو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی، اللہ اپنے نبی کریم ﷺ کی زبان سے جو چاہے فیصلہ فرمائے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Musa that the Prophet (ﷺ) said: “Intercede and your intercession may be accepted, and Allah, the Mighty and Sublime, decrees on the lips of His Prophet (ﷺ) whatsoever He will.” (Sahih)