Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling A Mudabbar)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4653.
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی نے جسے ابو مذکور کہا جاتا تھا، اپنا ایک غلام مدبر کیا۔ اس غلام کا نام یعقوب تھا۔ اس آدمی کے پاس کوئی اور مال نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو بلایا اور فرمایا: ”اس غلام کو کون خریدے گا؟“ حضرت نعیم بن عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے آٹھ سو در ہم میں خرید لیا۔ آپ نے وہ درہم اس کے سپرد کیے اور فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آدمی فقیر ہو تو اپنے بال بچوں پر خرچ کرے۔ مزید اگر کچھ بچے تو اپنے قریبی اور رشتہ داروں پر خرچ کرے، پھر اگر بچ جائے تو پھر ادھر ادھر (فی سبیل اللہ صدقہ کرے)۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4666
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4667
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4657
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی نے جسے ابو مذکور کہا جاتا تھا، اپنا ایک غلام مدبر کیا۔ اس غلام کا نام یعقوب تھا۔ اس آدمی کے پاس کوئی اور مال نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو بلایا اور فرمایا: ”اس غلام کو کون خریدے گا؟“ حضرت نعیم بن عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے آٹھ سو در ہم میں خرید لیا۔ آپ نے وہ درہم اس کے سپرد کیے اور فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آدمی فقیر ہو تو اپنے بال بچوں پر خرچ کرے۔ مزید اگر کچھ بچے تو اپنے قریبی اور رشتہ داروں پر خرچ کرے، پھر اگر بچ جائے تو پھر ادھر ادھر (فی سبیل اللہ صدقہ کرے)۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ سے روایت ہے کہ ابومذکور نامی انصاری نے ایک یعقوب نامی غلام کو مدبر کے طور پر آزاد کیا، اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مال نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے بلا کر فرمایا: ”اسے کون خریدے گا؟“ اسے نعیم ابن عبداللہ ؓ نے آٹھ سو درہم میں خریدا، آپ نے اس (انصاری) کو وہ (درہم) دے کر فرمایا: ”تم میں جب کوئی محتاج ہو تو پہلے اپنی ذات سے شروع کرے، پھر اگر بچے تو اپنے گھر والوں پر، پھر اگر بچے تو اپنے رشتے داروں پر، اور اگر پھر بھی بچ رہے تو ادھر ادھر“ (یعنی دوسرے فقراء پر خرچ کرے)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Jabir that: a man from among the Ansar who was called Abu (Madhkur) stated that a slave of his who was called Ya'qub was to be set free after he died, and he did not own any other property apart from him. The Messenger of Allah (ﷺ) called for him (the slave) to be brought and he said: "Who will buy him?" Nu'aim bin 'Abdullah bought him for eight hundred dirhams, and he gave it to him and said: "If one of you is poor, let him start with himself; if there is anything left over, (let him give it) to his dependents; if there is anything left over, (let him give it) to his relatives; and if there is anything left over, (let him give it) here and there.