باب: علقمہ بن وائل کی روایت میں راویوں کے اختلاف کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Mentioning The Differences Reported In The Narration Of 'Alqamah Bin Wa'il)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4724.
حضرت وائل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں موقع پر موجود تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک قاتل لایا گیا جسے مقتول کا ولی ایک تندی (چمڑے کی رسی) کے ساتھ کھینچے لا رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے مقتول کے ولی سے فرمایا: ”کیا تو معاف کرے گا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تو دیت لے گا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”قتل کرے گا؟“ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”جا لے جا۔“ جب وہ اس کو لے جانے کے لیے آپ کے پاس سے مڑا تو آپ نے اس کو بلایا اور فرمایا: ”کیا تو معاف کرے گا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا دیت لے گا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر قتل کرے گا؟“ اس نے کہا: ہاں۔ تو آپ نے فرمایا: ”اسے لے جا۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سنو! اگر تو اسے معاف کر دے تو یہ اپنے اور تیرے مقتول کے گناہوں کا بوجھ اٹھائے گا۔“ اس نے اسے معاف کر کے چھوڑ دیا۔ میں نے اسے دیکھا کہ وہ (قاتل) اپنی تندی کو گھسیٹتے ہوئے جا رہا تھا۔
تشریح:
”اپنے اور مقتول کے گناہوں“ یعنی معافی کی صورت میں مقتول کے گناہ بھی اس کے گلے میں ڈال دیے جائیں گے اور وہ جنتی ہو جائے گا، بخلاف اس سے قصاص لینے کے کہ اس طرح قاتل کا گناہ قتل معاف ہو جائے گا جب کہ مقتول کے گناہ معاف ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4737
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4738
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4728
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت وائل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں موقع پر موجود تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک قاتل لایا گیا جسے مقتول کا ولی ایک تندی (چمڑے کی رسی) کے ساتھ کھینچے لا رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے مقتول کے ولی سے فرمایا: ”کیا تو معاف کرے گا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تو دیت لے گا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”قتل کرے گا؟“ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”جا لے جا۔“ جب وہ اس کو لے جانے کے لیے آپ کے پاس سے مڑا تو آپ نے اس کو بلایا اور فرمایا: ”کیا تو معاف کرے گا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا دیت لے گا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر قتل کرے گا؟“ اس نے کہا: ہاں۔ تو آپ نے فرمایا: ”اسے لے جا۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سنو! اگر تو اسے معاف کر دے تو یہ اپنے اور تیرے مقتول کے گناہوں کا بوجھ اٹھائے گا۔“ اس نے اسے معاف کر کے چھوڑ دیا۔ میں نے اسے دیکھا کہ وہ (قاتل) اپنی تندی کو گھسیٹتے ہوئے جا رہا تھا۔
حدیث حاشیہ:
”اپنے اور مقتول کے گناہوں“ یعنی معافی کی صورت میں مقتول کے گناہ بھی اس کے گلے میں ڈال دیے جائیں گے اور وہ جنتی ہو جائے گا، بخلاف اس سے قصاص لینے کے کہ اس طرح قاتل کا گناہ قتل معاف ہو جائے گا جب کہ مقتول کے گناہ معاف ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
وائل ؓ کہتے ہیں کہ جب قاتل کو لایا گیا تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا، مقتول کا ولی اسے رسی میں کھینچ کر لا رہا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے مقتول کے ولی سے فرمایا: ”کیا تم معاف کرو گے؟“ وہ بولا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا دیت لو گے؟“ وہ بولا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو کیا تم قتل کرو گے؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”لے جاؤ اسے“، چنانچہ جب وہ لے کر چلا اور رخ پھیرا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ”کیا تم معاف کرو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا دیت لو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو قتل ہی کرو گے؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”لے جاؤ اسے“، اسی وقت رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ”سنو! اگر اسے معاف کرتے ہو تو وہ اپنا گناہ اور تمہارے (مقتول) آدمی کا گناہ سمیٹ لے گا“۱؎، چنانچہ اس نے اسے معاف کر دیا، اور اسے چھوڑ دیا، پھر میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی گھسیٹ رہا تھا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مطلب یہ ہے کہ قتل سے پہلے جو گناہ اس کے سر تھا اور قتل کے بعد جس گناہ کا وہ مرتکب ہوا ہے ان دونوں کو وہ سمیٹ لے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Alqamah binWa'il Al-Hadrami that his farther said: A man who had killed someone was brought to the Messenger of Allah (ﷺ), and he was brought by the heir of the victim. The Messenger of Allah (ﷺ) said to him. 'Will you forgive him? He said: No.' He said: 'Will you kill him? He said: 'Yes.' He said: 'Go away.' Then when he went away, he called him back and said: will you forgive him?' He said: 'No.' He said: 'Will you accept the Diyah? He said: 'No.' He said: 'will you kill him? He said: 'Yes.' He said: 'Go away.' Then when he had gone he said: If you forgive him, he will carry your sin and the sin of your companion (the victim)." So he forgave him and let him go." He said: "And I saw him dragging his string.