باب: علقمہ بن وائل کی روایت میں راویوں کے اختلاف کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Mentioning The Differences Reported In The Narration Of 'Alqamah Bin Wa'il)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4725.
ایک اور سند سے حضرت وائل رضی اللہ تعالٰی عنہ نبیﷺ سے اس جیسی روایت بیان کرتے ہیں۔ یحییٰ نے کہا: یہ روایت اس (سابقہ روایت) سے (سنداً) اچھی ہے۔
تشریح:
مذکورہ دونوں روایتیں یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں۔ پہلی روایت وہ عوف بن ابو جمیلہ سے بیان کرتے ہیں: جبکہ دوسری روایت میں ان کے استاد جامع بن مطر حبطی ہیں۔ اس دوسری روایت کے پہلی روایت سے اچھا اور بہتر ہونے کا سبب، واللہ أعلم! یہ ہے کہ یحییٰ بن سعید کا استاد جامع بن مطر حبطی، ان کے استاد عوف بن ابی جمیلہ سے حدیث بیان کرنے میں اچھا ہے۔ عوف بن ابی جمیلہ کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: [قَالَ بُنْدَارٌ… لَقَدْ کَانَ قَدَرِیًّا، رَافِضِیًّا، شَیْطَانًا]”بندار (محمد بن بشار) نے کہا:… بلا شبہ وہ (عوف بن ابو جمیلہ) تقدیر کا منکر، شیعہ رافضی اور شیطان تھا۔“ دیکھیے: (تھذیب التھذیب: ۸/ ۱۴۹) امام ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عوف ایک بدعت پر راضی نہیں ہوا بلکہ اس میں دو بدعتیں پائی جاتی تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ قدری، یعنی تقدیر کا منکر تھا اور دوسری بدعت یہ تھی کہ وہ شیعہ اور رافضی تھا۔ (حوالہ مذکور)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4738
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4739
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4729
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
ایک اور سند سے حضرت وائل رضی اللہ تعالٰی عنہ نبیﷺ سے اس جیسی روایت بیان کرتے ہیں۔ یحییٰ نے کہا: یہ روایت اس (سابقہ روایت) سے (سنداً) اچھی ہے۔
حدیث حاشیہ:
مذکورہ دونوں روایتیں یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں۔ پہلی روایت وہ عوف بن ابو جمیلہ سے بیان کرتے ہیں: جبکہ دوسری روایت میں ان کے استاد جامع بن مطر حبطی ہیں۔ اس دوسری روایت کے پہلی روایت سے اچھا اور بہتر ہونے کا سبب، واللہ أعلم! یہ ہے کہ یحییٰ بن سعید کا استاد جامع بن مطر حبطی، ان کے استاد عوف بن ابی جمیلہ سے حدیث بیان کرنے میں اچھا ہے۔ عوف بن ابی جمیلہ کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: [قَالَ بُنْدَارٌ… لَقَدْ کَانَ قَدَرِیًّا، رَافِضِیًّا، شَیْطَانًا]”بندار (محمد بن بشار) نے کہا:… بلا شبہ وہ (عوف بن ابو جمیلہ) تقدیر کا منکر، شیعہ رافضی اور شیطان تھا۔“ دیکھیے: (تھذیب التھذیب: ۸/ ۱۴۹) امام ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عوف ایک بدعت پر راضی نہیں ہوا بلکہ اس میں دو بدعتیں پائی جاتی تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ قدری، یعنی تقدیر کا منکر تھا اور دوسری بدعت یہ تھی کہ وہ شیعہ اور رافضی تھا۔ (حوالہ مذکور)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی وائل ؓ نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی روایت کرتے ہیں۔ یحییٰ ۱؎ کہتے ہیں: یہ اس سے بہتر ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ”یحییٰ“ یعنی القطان (جو راوی بھی ہیں، اور امام جرح و تعدیل بھی، وہ) فرماتے ہیں: اس حدیث کی یہ سند پچھلی سند سے بہتر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Wa'il said: "I saw the Messenger of Allah (ﷺ) when the heir of a victim brought the killer, leading him by a string. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said to the heir of the victim: Will you forgive him? He said: 'No., He said: 'Will you accept Diyah?' He said: 'No.' He said: 'Will you kill him?' He said: 'Yes.' He said" 'Take him away (to kill him).' When he took him and turned away, he turned to those who were with him, and called him back, and said to him: 'Will you forgive him?' He said: No.' He said: 'Will you accept Diyah?' He said: No.' He said: 'Will you kill him?' He said: 'Yes.' He said: 'Take him away.' Then the Messenger of Allah (ﷺ) said: 'If you forgive him, he will carry your sin and the sin of your companion (the victim).' So he forgave him and left him, and I was him dragging his string.