Sunan-nasai:
The Book of the Adhan (The Call to Prayer)
(Chapter: How The Adhan Began )
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
626.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جب مسلمان مدینہ آئے تو وہ اکٹھے ہوتے اور نماز کے وقت کا اندازہ لگاتے تھے۔ کوئی شخص اس (نماز) کا اعلان نہ کرتا تھا۔ ایک دن انھوں نے اس مسئلے کے بارے میں بات چیت کی۔ چنانچہ کسی نے کہا: عیسائیوں جیسا ناقوس (گھنٹہ) بنالو۔ کسی نے کہا: بلکہ یہودیوں جیسا نرسنگا (دھوتو) بنالو۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم (نماز کے وقت) کوئی آدمی (گلیوں میں) کیوں نہیں بھیج دیتے جو نماز کا اعلان کرے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلال! اٹھو اور نماز کا اعلان کرو۔“
تشریح:
(1) پہلی دو تجویزوں کو رد کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس میں غیرمسلموں سے مشابہت تھی جبکہ دینی امور میں غیرمسلموں سے مشابہت درست نہیں بلکہ دنیوی امور میں بھی ان سے امتیاز چاہیے۔ ّ(2) ناقوس ایک لکڑی ہوتی تھی جسے دوسری لکڑی پر مارتے تھے تو آواز پیدا ہوتی تھی، پھر لوہے یا پیتل پر لکڑی مارنے لگے۔ (3) قرن سینگ کی شکل کا ایک آلہ ہے جس کے ایک طرف پھونک ماری جائے تو دوسری طرف سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ آج کل کا سائرن بھی قرن جیسی آواز پیدا کرتا ہے، اسی طرح ناقوس کی موجودہ صورت گھنٹی ہے، لہٰذا مسلمانوں کو اپنی عبادات کے موقع پر گھنٹی یا سائرن سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (4) حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اعلان کا حکم دینا اذان کی مشروعیت سے قبل کی بات ہے۔ وہ گلیوں میں [الصلاةُجامِعةٌ] ”نماز تیار ہے“کی آواز دیتے تھے۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن زید اور بعض دیگر صحابہ کو خواب میں اذان دکھایئ گئی تو پھر بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کہنےپر مقرر کیا گیا۔ یہ بعد کی بات ہے۔ اگر اس اعلان سے اذان مراد ہو تو یہ روایت مختصر ہوگی جس میں اس سے قبل کافی عبارت حذف ہے مگر یہ بعید توجیہ ہے، پہلی بات درست ہے۔ (5) بعض روایات میں آگ کی تجویز کا بھی ذکر ہے مگر اسے بھی رد کر دیا گیا کیونکہ یہ مجوس کا مذہبی نشان ہے، نیز آگ ہر وقت نظر نہیں آتی اور نہ بارش وغیرہ میں اسے جلانا ممکن ہے۔ (6) اہم امور باہمی مشورے سے طے کرنے چاہئیں۔ اس کے بے شمار فوائد ہیں اور مشورہ دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ صحیح صحیح مشورہ دے۔ (7) اذان کھڑے ہوکر دینا مشروع ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جب مسلمان مدینہ آئے تو وہ اکٹھے ہوتے اور نماز کے وقت کا اندازہ لگاتے تھے۔ کوئی شخص اس (نماز) کا اعلان نہ کرتا تھا۔ ایک دن انھوں نے اس مسئلے کے بارے میں بات چیت کی۔ چنانچہ کسی نے کہا: عیسائیوں جیسا ناقوس (گھنٹہ) بنالو۔ کسی نے کہا: بلکہ یہودیوں جیسا نرسنگا (دھوتو) بنالو۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم (نماز کے وقت) کوئی آدمی (گلیوں میں) کیوں نہیں بھیج دیتے جو نماز کا اعلان کرے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلال! اٹھو اور نماز کا اعلان کرو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) پہلی دو تجویزوں کو رد کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس میں غیرمسلموں سے مشابہت تھی جبکہ دینی امور میں غیرمسلموں سے مشابہت درست نہیں بلکہ دنیوی امور میں بھی ان سے امتیاز چاہیے۔ ّ(2) ناقوس ایک لکڑی ہوتی تھی جسے دوسری لکڑی پر مارتے تھے تو آواز پیدا ہوتی تھی، پھر لوہے یا پیتل پر لکڑی مارنے لگے۔ (3) قرن سینگ کی شکل کا ایک آلہ ہے جس کے ایک طرف پھونک ماری جائے تو دوسری طرف سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ آج کل کا سائرن بھی قرن جیسی آواز پیدا کرتا ہے، اسی طرح ناقوس کی موجودہ صورت گھنٹی ہے، لہٰذا مسلمانوں کو اپنی عبادات کے موقع پر گھنٹی یا سائرن سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (4) حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اعلان کا حکم دینا اذان کی مشروعیت سے قبل کی بات ہے۔ وہ گلیوں میں [الصلاةُجامِعةٌ] ”نماز تیار ہے“کی آواز دیتے تھے۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن زید اور بعض دیگر صحابہ کو خواب میں اذان دکھایئ گئی تو پھر بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کہنےپر مقرر کیا گیا۔ یہ بعد کی بات ہے۔ اگر اس اعلان سے اذان مراد ہو تو یہ روایت مختصر ہوگی جس میں اس سے قبل کافی عبارت حذف ہے مگر یہ بعید توجیہ ہے، پہلی بات درست ہے۔ (5) بعض روایات میں آگ کی تجویز کا بھی ذکر ہے مگر اسے بھی رد کر دیا گیا کیونکہ یہ مجوس کا مذہبی نشان ہے، نیز آگ ہر وقت نظر نہیں آتی اور نہ بارش وغیرہ میں اسے جلانا ممکن ہے۔ (6) اہم امور باہمی مشورے سے طے کرنے چاہئیں۔ اس کے بے شمار فوائد ہیں اور مشورہ دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ صحیح صحیح مشورہ دے۔ (7) اذان کھڑے ہوکر دینا مشروع ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ جس وقت مسلمان مدینہ آئے تو وہ جمع ہو کر نماز کے وقت کا اندازہ کرتے تھے، اس وقت کوئی نماز کے لیے اذان نہیں دیتا تھا، تو ایک دن لوگوں نے اس سلسلے میں گفتگو کی، تو کچھ لوگ کہنے لگے: نصاریٰ کے مانند ایک ناقوس بنا لو، اور کچھ لوگ کہنے لگے: بلکہ یہود کے سنکھ کی طرح ایک سنکھ بنا لو، تو اس پر عمر ؓ نے کہا: کیا تم کسی شخص کو بھیج نہیں سکتے کہ وہ نماز کے لیے پکار دیا کرے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلال! اٹھو اور نماز کے لیے پکارو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Anas (RA) said: "The Messenger of Allah (ﷺ) commanded Bilal to say the phrases of the Adhan twice and the phrases of the Iqamah once".