قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الشَّهَادَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِيمَنْ لاَ تَجُوزُ شَهَادَتُهُ​)

حکم : ضعیف 

2298. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ الْفَزَارِيُّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ خَائِنٍ وَلَا خَائِنَةٍ وَلَا مَجْلُودٍ حَدًّا وَلَا مَجْلُودَةٍ وَلَا ذِي غِمْرٍ لِأَخِيهِ وَلَا مُجَرَّبِ شَهَادَةٍ وَلَا الْقَانِعِ أَهْلَ الْبَيْتِ لَهُمْ وَلَا ظَنِينٍ فِي وَلَاءٍ وَلَا قَرَابَةٍ قَالَ الْفَزَارِيُّ الْقَانِعُ التَّابِعُ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيِّ وَيَزِيدُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَلَا يُعْرَفُ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ وَلَا نَعْرِفُ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ وَلَا يَصِحُّ عِنْدِي مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ وَالْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي هَذَا أَنَّ شَهَادَةَ الْقَرِيبِ جَائِزَةٌ لِقَرَابَتِهِ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي شَهَادَةِ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ وَالْوَلَدِ لِوَالِدِهِ وَلَمْ يُجِزْ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ شَهَادَةَ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ وَلَا الْوَلَدِ لِلْوَالِدِ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا كَانَ عَدْلًا فَشَهَادَةُ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ جَائِزَةٌ وَكَذَلِكَ شَهَادَةُ الْوَلَدِ لِلْوَالِدِ وَلَمْ يَخْتَلِفُوا فِي شَهَادَةِ الْأَخِ لِأَخِيهِ أَنَّهَا جَائِزَةٌ وَكَذَلِكَ شَهَادَةُ كُلِّ قَرِيبٍ لِقَرِيبِهِ و قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا تَجُوزُ شَهَادَةٌ لِرَجُلٍ عَلَى الْآخَرِ وَإِنْ كَانَ عَدْلًا إِذَا كَانَتْ بَيْنَهُمَا عَدَاوَةٌ وَذَهَبَ إِلَى حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ صَاحِبِ إِحْنَةٍ يَعْنِي صَاحِبَ عَدَاوَةٍ وَكَذَلِكَ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ حَيْثُ قَالَ لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ صَاحِبِ غِمْرٍ لِأَخِيهِ يَعْنِي صَاحِبَ عَدَاوَةٍ

مترجم:

2298.

ام المومنین عائشہ‬ ؓ ک‬ہتی ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’خیانت کرنے والے مرد اور عورت کی گواہی درست اورمقبول نہیں ہے، اورنہ ان مردوں اورعورتوں کی گواہی مقبول ہے جن پر حد نافذ ہوچکی ہے، نہ اپنے بھائی سے دشمنی رکھنے والے کی گواہی مقبول ہے، نہ اس آدمی کی جس کی ایک بارجھوٹی گواہی آزمائی جا چکی ہو، نہ اس شخص کی گواہی جو کسی کے زیرکفالت ہو اس کفیل خاندان کے حق میں (جیسے مزدور وغیرہ) اور نہ اس شخص کی جو ولاء یا رشتہ داری کی نسبت میں متہم ہو‘‘۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱۔ یہ حدیث غریب ہے۔
۲۔ ہم اسے صر ف یزید بن زیاد دمشقی کی روایت سے جانتے ہیں، اوریزید ضعیف الحدیث ہیں، نیز یہ حدیث زہری کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانی جاتی ہے۔
۳۔ اس باب میں عبداللہ بن عمروسے بھی حدیث مروی ہے۔
۴۔ فزازی کہتے ہیں: (قانع) سے مراد (تابع) ہے۔
۵۔ اس حدیث کا مطلب ہم نہیں سمجھتے اورنہ ہی سند کے اعتبارسے یہ میرے نزدیک صحیح ہے۔
۶۔ اس بارے میں اہل علم کا عمل ہے کہ رشتہ دارکے لیے رشتہ کی گواہی درست ہے، البتہ بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی یا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، اکثراہل علم بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی یا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کو درست نہیں سمجھتے۔
۷۔ بعض اہل علم کہتے ہیں: جب گواہی دینے والاعادل ہو تو باپ کی گواہی بیٹے کے حق میں اسی طرح باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی درست ہے۔
۸۔ بھائی کی گواہی کے جواز کے بارے میں اختلاف نہیں ہے۔
۹۔ اسی طرح رشتہ دارکے لیے رشتہ دار کی گواہی میں بھی اختلاف نہیں ہے۔
۱۰۔ امام شافعی کہتے ہیں: جب دو آدمیوں میں دشمنی ہوتو ایک کے خلاف دوسرے کی گواہی درست نہ ہوگی، اگرچہ گواہی دینے والا عادل ہو، انہوں نے عبدالرحمن اعرج کی حدیث سے استدلال کیا ہے جونبی اکرمﷺ سے مرسلاً مروی ہے کہ دشمنی رکھنے والے کی گواہی درست نہیں ہے، اسی طرح اس (مذکورہ) حدیث کا بھی مفہوم یہی ہے، (جس میں) آپ نے فرمایا: ’’اپنے بھائی کے لیے دشمنی رکھنے والے کی گواہی درست نہیں ہے۔‘‘