قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الدُّخَانِ​)

حکم : صحیح 

3254. حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْجُدِّيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ وَمَنْصُورٍ سَمِعَا أَبَا الضُّحَى يُحَدِّثُ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ إِنَّ قَاصًّا يَقُصُّ يَقُولُ إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ الْأَرْضِ الدُّخَانُ فَيَأْخُذُ بِمَسَامِعِ الْكُفَّارِ وَيَأْخُذُ الْمُؤْمِنَ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ قَالَ فَغَضِبَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ إِذَا سُئِلَ أَحَدُكُمْ عَمَّا يَعْلَمُ فَلْيَقُلْ بِهِ قَالَ مَنْصُورٌ فَلْيُخْبِرْ بِهِ وَإِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ فَلْيَقُلْ اللَّهُ أَعْلَمُ فَإِنَّ مِنْ عِلْمِ الرَّجُلِ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ اللَّهُ أَعْلَمُ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ لِنَبِيِّهِ قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَكَلِّفِينَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى قُرَيْشًا اسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ قَالَ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ فَأَحْصَتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ وَقَالَ أَحَدُهُمَا الْعِظَامَ قَالَ وَجَعَلَ يَخْرُجُ مِنْ الْأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ قَالَ فَهَذَا لِقَوْلِهِ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ قَالَ مَنْصُورٌ هَذَا لِقَوْلِهِ رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ فَهَلْ يُكْشَفُ عَذَابُ الْآخِرَةِ قَدْ مَضَى الْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَالدُّخَانُ و قَالَ أَحَدُهُمْ الْقَمَرُ وَقَالَ الْآخَرُ الرُّومُ قَالَ أَبُو عِيسَى وَاللِّزَامُ يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ قَالَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

مترجم:

3254.

مسروق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آ کر کہا: ایک قصہ گو (واعظ) قصہ بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا (قیامت کے قریب) زمین سے دھواں نکلے گا، جس سے کافروں کے کان بند ہو جائیں گے، اور مسلمانوں کو زکام ہو جائے گا۔  مسروق کہتے ہیں: یہ سن کر عبداللہ غصہ ہو گئے (پہلے) ٹیک لگائے ہوئے تھے، (سنبھل کر) بیٹھ گئے۔ پھر کہا: تم میں سے جب کسی سے کوئی چیز پوچھی جائے اور وہ اس کے بارے میں جانتا ہو توا سے بتانی چاہیے اور جب کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو اسے (اَللہُ أَعلَمُ ) (اللہ بہتر جانتا ہے) کہنا چاہیے، کیوں کہ یہ آدمی کے علم و جانکاری ہی کی بات ہے کہ جب اس سے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو وہ کہہ دے (اَللہُ أعلَمُ) (اللہ بہترجانتا ہے)، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ سے فرمایا: ﴿قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَكَلِّفِينَ﴾۱؎ (بات اس دخان کی یہ ہے کہ) جب رسول اللہ ﷺ نے قریش کو دیکھا کہ وہ نافرمانی ہی کیے جارہے ہیں تو آپﷺ نے کہا: اے اللہ! یوسف ؑ کے سات سالہ قحط کی طرح ان پر سات سالہ قحط بھیج کر ہماری مدد کر (آپﷺ کی دعا قبول ہو گئی)، ان پر قحط پڑ گیا، ہر چیز اس سے متاثر ہو گئی، لوگ چمڑے اور مردار کھانے لگے (اس حدیث کے دونوں راویوں اعمش و منصور میں سے ایک نے کہا ہڈیاں بھی کھانے لگے)، عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا: دھواں جیسی چیز زمین سے نکلنے لگی، تو ابو سفیان نے آپﷺ کے پاس آ کر کہا: آپﷺ کی قوم ہلاک و برباد ہو گئی، آپﷺ ان کی خاطر اللہ سے دعا فرما دیجئے عبداللہ نے کہا: یہی مراد ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاء بِدُخَانٍ مُّبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ (الدخان :10-11)۲؎  کا، منصور کہتے ہیں: یہی مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ﴾ (الدخان:12)۳؎  کا، تو کیا آخرت کا عذاب ٹالا جا سکے گا؟۔ عبداللہ کہتے ہیں: (بطشة)، (لزام ) (بدر) اور دخان کا ذکر و زمانہ گزر گیا اعمش اور منصور دونوں راویوں میں سے، ایک نے کہا:( قمر) (چاند ) کا شق ہونا گزر گیا، اور دوسرے نے کہا: روم کے مغلوب ہونے کا واقعہ بھی پیش آ چکا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲۔ (لزام) سے مراد یوم بدر ہے۔