تشریح:
۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز میں سلام کا جواب اشارہ سے دینا مشروع ہے، یہی جمہور کی رائے ہے، بعض لوگ اسے ممنوع کہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پہلے جائز تھا بعد میں منسوخ ہو گیا، لیکن یہ صحیح نہیں، بلکہ صحیح یہ ہے کہ پہلے نماز میں کلام کرنا جائز تھا تو لوگ سلام کا جواب بھی ((وَعَلَیْکُمُ السَّلَام)) کہہ کر دیتے تھے، پھر جب نماز میں کلام کرنا نا جائز قرار دے دیا گیا تو ((وَعَلَیْکُمُ السَّلَام)) کہہ کر سلام کا جواب دینا بھی نا جائز ہو گیا اور اس کے بدلے اشارے سے سلام کا جواب دینا مشروع ہوا، اس اشارے کی نوعیت کے سلسلہ میں احادیث مختلف ہیں، بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا اس طرح کہ ہاتھ کی پشت اوپر تھی اور ہتھیلی نیچے تھی، اور بعض احادیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے سر سے اشارہ کیا ان سب سے معلوم ہوا کہ یہ تینوں صورتیں جائز ہیں۔
۲؎: اگلی حدیث نمبر۳۶۸ کے تحت مؤلف نے اس حدیث پر حکم لگایا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وصححه الترمذي. وأخرجه ابن الجارود في "المنتقى") .
إسناده: حدثنا يزيد بن خالد بن مَوْهَبٍ وقتيبة بن سعيد أن الليث حدثهم عن بُكَيْرٍ عن نابل- صاحب العباءِ- عن ابن عمر. وهذا لفظ حديث قتيبة.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات؛ غير نابل هذا؛ فإنه غير مشهور، كما قال النسائي. وقال في موضع آخر:
"ثقة". وذكره ابن حبان في "الثقات ". وأشار الدارقطني أنه غير ثقة. وقال الحافظ. " مقبول "؛ يعني: عند المتابعة، وقد توبع كما يأتي بيانه بعد حديث؛ فهو صحيح.
والحديث أخرجه النسائي (1/177) ، والترمذی(2/203/367) ... بإسناد المصنف الثاني عن الليث... به. وقال الترمذيَ حديث حسن ".
وأخرجه الدارمي (1/316) ، والطحاوي (1/263) ، وابن الجارود في "المنتقى" (216) ، والبيهقي (2/258) ، وأحمد (4/332) من طرق أخرى عن الليث بن سعد... به.