تشریح:
۱؎: یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ اعمال سبھی اللہ ہی کے لیے ہوتے ہیں اور وہی ان کا بدلہ دیتا ہے پھر ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا‘‘ کہنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ روزے میں ریا کاری کا عمل دخل نہیں ہے جبکہ دوسرے اعمال میں ریا کاری ہو سکتی ہے کیونکہ دوسرے اعمال کا انحصار حرکات پر ہے جبکہ روزے کا انحصار صرف نیت پر ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ دوسرے اعمال کا ثواب لوگوں کو بتا دیا گیا ہے کہ وہ اس سے سات سو گنا تک ہو سکتا ہے لیکن روزے کا ثواب صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ اللہ ہی اس کا ثواب دے گا دوسروں کے علم میں نہیں ہے اسی لیے فرمایا: ((الصَّوْمُ لِيْ وَأَنَا أَجْزِي بِه))۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه، وهو عند البخاري بإسناد المصنف) .
إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي عن مالك عن أبي الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث في "الموطأ" (1/287) ... إسناداً ومتناً.
وأخرجه البخاري (4/83) ... بإسناد المؤلف عنه.
والبيهقي (4/269) - من طريقين آخرين-، وأحمد (2/465) - من طريق ثالث- كلهم عن مالك... به. وأخرجه مسلم (3/157) مفرقاً من طريقين آخرين عن أبي الزناد... به.
وله عن أبي هريرة طرق أخرى، خرجتها في "الإرواء" (918) .وروى له النسائي (1/311- 312) شاهداً من حديث عائشة... نحوه بسند صحيح.