تشریح:
۱؎: علماء کا اجماع ہے کہ ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنا کسی بھی حال میں جائز نہیں خواہ وہ نذر کا روزہ ہو یا نفلی روزہ ہو یا کفارے کا یا ان کے علاوہ کوئی اور روزہ ہو، اگر کوئی تعیین کے ساتھ ان دونوں دنو ں میں روزہ رکھنے کی نذرمان لے تو جمہور کے نزدیک اس کی یہ نذر منعقد نہیں ہو گی اور نہ ہی اس کی قضا اس پر لازم آئے گی اور امام ابو حنیفہ کہتے ہیں نذر منعقد ہو جائے گی لیکن وہ ان دونوں دنوں میں روزہ نہیں رکھے گا، ان کی قضا کرے گا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه الترمذي وابن الجارود) . إسناده: حدثنا قتيبة بن سعيد وزهير بن حرب- وهذا حديثه- قالا: ثنا سفيان عن الزهري عن أبي عبيد.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث أخرجه الشافعي في "سننه " (رقم 723- ترتيبه) ، وأحمد (1/24) ، والحميدي (8) ، وابن أبي شيبة (3/103- 104) قالوا: ثنا سفيان بن عيينة... به. وأخرجه ابن ماجه والطحاوي وابن الجارود من طرق أخرى عن سفيان... به. وأخرجه مالك وأحمد والشيخان والترمذي وغيرهم من طرق أخرى عن الزهري... به. وله طريق أخرى عن أبي عبيد... به، أخرجته وما قبله في "إرواء الغليل "
برقم (962) .