تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں نماز باجماعت کی اہمیت اس قدر تھی۔ کہ ہوش آتے ہی سب سے پہلے نماز کے متعلق دریافت فرماتے تھے۔
(2) یہ حضر ت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت ہے۔ کہ تمام صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کی موجودگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امام مقرر فرمایا۔
(3) صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے اسی واقعہ سے استدلال کرتے ہوئے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امامت کبریٰ (خلافت) کے منصب پرفائز کیا۔
(4) امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اصرار کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں فرمایا۔ اس لئے قائد کو چاہیے کہ جوفیصلہ اسےدلائل کی روشنی میں بہتر اور صحیح محسوس ہو اس پر پختگی سے قائم رہے۔ اپنے ساتھیوں کے اصرار سے فیصلہ تبدیل نہ کردے۔
(5) ضرورت کے موقع پراجنبی عورت سے مناسب خدمت لی جا سکتی ہے جبکہ غلط فہمی پیدا ہونے اور نامناسب نتائج نکلنے کا اندیشہ نہ ہو۔ حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خرید کرآذاد کردیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں وہ آزاد تھیں۔
(6) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دے کر مسجد لانے والوں کی بابت مختلف روایتوں میں مختلف نام مذکور ہیں۔ مذکورہ روایت میں حضرت بریرۃ اور ایک آدمی کا ذکرہے۔جبکہ صحیح بخاری میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہے۔ ان دونوں ر وایتوں کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ ان کے درمیان اس طرح تطبیق دیتے ہیں۔ کہ حضرت بریرۃرضی اللہ تعالیٰ عنہا اور نا معلوم آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوگھر سے مسجد تک اور اس سے آگے نماز کی جگہ تک حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ لے آئے۔ یا پھر دو الگ الگ واقعات پر محمول ہے واللہ أعلم۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: (فتح الباری 201/2، حدیث:665)