تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) یہ روایت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذکر کے بغیر بعض کے نزدیک صحیح اور بعض کے نزدیک حسن ہے۔ دیکھئے: (صحیح ابن ماجة، حدیث:1027)
(2) اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دایئں طرف بیٹھے لیکن زیادہ صحیح روایات میں بایئں طرف بیٹھنے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، باب الرجل یأتم بالإمام، ویأتم الناس بالمأموم، حدیث:713) سنن ابن ماجہ کی دوسری روایات میں دایئیں بایئں کا ذکر کئے بغیر صرف پہلو میں بیٹھنے کا ذکر ہے۔
(3) اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ مقتدی پر فاتحہ پڑھنا فرض یا واجب نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت وہاں سے شروع کی جہاں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چھوڑی تھی یعنی فاتحہ نہیں پڑھی۔ لیکن یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز میں مقتدی نہیں تھے۔ بلکہ امام تھے۔ اور امام بہرحال فاتحہ پڑھتا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔
(4) قراءت سے مراد نماز ہے۔ یعنی ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی قیام میں تھے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شروع سے نمازشروع کردی۔ اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رکوع یا سجدے میں ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامت نہ فرماتے جیسے کہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کی تھی۔ واقعہ کی تفصیل اگلے باب میں آرہی ہے۔