تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ دیگر محققین اسے صحیح قرار دیتے ہیں۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔ کہ لحد بنانا مستحب ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کے اتفاق سے رسول اللہ ﷺ کے لئے لحد ہی کھو دی گئی تھی۔ دیکھئے: (صحیح مسلم، بشرح النووی، کتاب الجنائز، باب فی اللحد ونصب اللبن علی المیت:49/48/7، حدیث:966) لہٰذا جہاں لحد (بغلی قبر بن سکتی ہو وہاں لحد بنانا مستحب اورافضل ہے۔ البتہ شق (صندوقی قبر) بنانا بھی جائز ہے۔ جیسا کہ آئندہ آنے والی احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ واللہ أعلم۔
(2) لحد یعنی بغلی قبر سے مراد یہ ہے کہ پہلے گڑھا کھودا جائے پھر اس میں ایک طرف میت کے لئے جگہ بنا کر اس میں میت کو رکھا جائے۔ اور شق کا مطلب یہ ہے کہ بڑا گڑھا کھود کر اس کے درمیان میں میت کےلئے نسبتاً چھوٹا گڑھا کھوداجائے۔
(3) دونوں طرح قبر بنانا جائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہﷺ کے زمانوں میں دونوں طریقوں پر عمل ہوتا تھا۔ جیسے کہ آئندہ حدیث سے ظاہر ہے۔
(4) شق (صندوقی قبر) دوسروں کے لئے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہمارے لئے جائز نہیں غالباً اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلموں میں زیادہ شق (صندوقی قبر) کا رواج ہے۔ اور مسلمان زیادہ تر لحد (بغلی قبر) بناتے ہیں۔ واللہ أعلم۔