تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) دین اسلام نے جس طرح انسان کی زندگی میں اس کے ساتھ بدسلوکی اور بے حرمتی کو ممنوع قراردیا ہے اسی طرح اس کے فوت ہوجانے کے بعد بھی اس کی عزت وتکریم اور حرمت کو برقرار رکھا ہے۔
(2) موجودہ دور میں پوسٹ مارٹم کے نام سے مردہ انسان کی چیر پھاڑ کا کام غیر شرعی ہے۔ انتہائی شدید شرعی مصلحت کے بغیر اس پر عمل کرنا ناجائز ہے۔ سعودی علمائے کرام نے اس مسئلے کو تین حصوں میں تقیسم کیا ہے۔
1۔ کسی فوجداری دعویٰ کی تحقیق کی غرض سے پوسٹ مارٹم۔
2۔ وبائی امراض کی تحقیق کی غرض سے پوسٹ مارٹم۔
3۔ تعلیم وتعلم یعنی اعلیٰ تعلیمی مقاصد کےلئےپوسٹ مارٹم۔
پہلی اور دوسری صورت میں پوسٹ مارٹم جائز ہے۔ کیونکہ ان صورتوں میں امن وامان اور معاشرے کو وبائی امراض سے بچانے کی بہت سی مصلحتیں کارفرماہیں۔ اور اس میں اس میت کی بے حرمتی کا جو پہلو ہے۔ جس کا پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہو۔ وہ ان یقینی اور بہت سی مصلحتوں کے مقابلے میں چھپ جاتا ہے۔ باقی رہی تیسری قسم۔ یعنی تعلیمی مقاصد کےلئے پوسٹ مارٹم شریعت اسلامیہ پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مقصد یہ ہے مصالح کو زیادہ سے زیادہ حاصل کیاجائے۔ اور مفاسد کو کم سے کم کیا جائے۔خواہ اس کے لئے دو ضرر رساں چیزوں میں سے اس کا ارتکاب کرنا پڑے۔ جس کا ضرر کم اور اسے ختم کیا جاسکے۔ جس کا نقصان زیادہ ہو۔اور جب مصالح میں تعارج ہو تو اسے اختیار کر لیا جائےگا۔ جو راحج ہو حیوانی لاشوں کا پوسٹ مارٹم انسانی لاشوں کے پوسٹ مارٹم کا بدل نہیں ہوسکتا۔ اور پوسٹ مارٹم میں چونکہ بہت سی مصلحتیں ہیں۔ جو آج کی علمی ترقی کے باعث طبی مقاصد کے لئے بہت کارآمد ہیں۔ لہٰذا انسانی لاش کا پوسٹ مارٹم جائز ہے۔ لیکن شریعت نے چونکہ مسلمان کو موت کے بعد بھی اسی طرح عزیت وتکریم سے نوازا ہے۔ جسطرح زندگی میں اسے عزت وشرف سے سرفراز کیا ہے جیساکہ مذکورہ روایت میں ہے۔ اور پوسٹ مارٹم چونکہ عزت وتکریم کے منافی ہے۔اور اس میں انسانی لاش کی بے حرمتی ہے ار پوسٹ مارٹم کی ضرورت چونکہ غیر معصوم یعنی مرتد اور حربی لوگوں کی لاشوں کے آسانی سے میسر آ جانے کی وجہ سے پوری ہوجاتی ہے۔ لہٰذا اس مقصد کے لئے غیر معصوم یعنی مرتد اور حربی لوگوں کی لاشوں کو استعمال کرنے پر اکتفا کیا جائے۔ اور ان کے علاوہ دیگر لاشوں کو استعمال نہ کیا جائے۔ واللہ أعلم۔
(تفصیل کےلئے دیکھئے۔فتاویٰ اسلامیہ (اُردو) 2/ 98،97، مطبوعہ دارالسلام لاہور)
الحکم التفصیلی:
. قلت : هو سئ الحفظ ولكنه لم يتفرد به بل تابعه جماعة فمن الغريب أن يخفى ذلك على مثل ابن عدي فهاك رواياتهم : 1 - يحيى بن سعيد أخو سعد بن سعيد ! . أخرجه البيهقي والضياء المقدسي في ( المنتقى من مسموعاته بمرو ) ( ق 28 / 2 ) من طريق أبي أحمد الزبيري ثنا سفيان به . وقال الضياء : " قال الحبابي : عجيب عن سفيان " . قلت : ورجاله كلهم ثقات رجال الشيخين فهو صحيح الاسناد مع غرابته . 2 - أبو الرجال محمد بن أبي الرجال عن عمرة به . أخرجه أحمد ( 6 / 105 ) والخطيب ( 12 / 106 ) وكذا أبو نعيم في ( الحلية ) ( 7 / 95 ) واسناده صحيح على شرط الشيخين . وفي رواية لأحمد ( 6 / 100 ) عن محمد بن عبد الرحمن الأنصاري قال : قالت لي عمرة : اعطني قطعة من أرضك أدفن فيها فاني سمعت عائشة تقول : كسر عظم الميت مثل كسر عظم الحي . قال محمد : وكان مولى من أهل المدينة يحدثه عن عائشة عن النبي ( صلى الله عليه وسلم ) . وسنده صحيح وظاهره أن محمد بن عبد الرحمن الأنصاري ( وهو أبو الرجال ) لا يعرف عن عمرة مرفوعا وإلا لم يحتج إلى ذكر رواية المولى المرفوعة فهذه الرواية لعل الرواية الأولى وتبين أن رفع الحديث عن أبي الرجال وهم من بعض الرواة عنه والله أعلم . لكن الحديث صحيح رفعه من الطرق الأخرى . 3 - محمد بن عمارة عن عمرة به مرفوعا . أخرجه الطحاوي . وابن عمارة هذا سئ الحفظ أيضا فلا بأس به في الشوهد . 4 - حارثة بن محمد عن عمرة . أخرجه الطحاوي الخطيب ( 13 / 120 ) وحارثة ضعيف . والحديث طريق أخرى عن عائشة يرويه زهير بن محمد عن اسماعيل ابن أبي حكيم عن القاسم عنها . أخرجه الدارقطني . ورجاله كلهم ثقات غير أن زهير بن محمد وهو أبو المنذر الخراساني فيه ضعف . وأما حديث أم سلمة الذي فيه الزيادة فهو من طريق عبد الله بن زياد : أخبرني أبو عبيدة بن عبد الله بن زمعة عن أمه عن أم سلمة عن النبي ( صلى الله عليه وسلم ) قال : " كسر عظم الميت ككسر عظم الحي في الإثم " . أخرجه ابن ماجه ( 1617 ) قال البوصيري في " الزوائد " ( ق ( 103 / 1 ) : " فيه عبد الله بن زياد مجهول ولعله عبد الله بن زياد بن سمعان المدني أحد المتروكين فإنه في طبقته وله شاهد من حديث عائشة رواه أبو داود وابن ماجه وابن حبان "