تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) جس وقت یہ واقعہ پیش آیا۔ اس وقت حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہوچکے تھے۔ جب كہ ان کا قبیلہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔
(2) مسافر کو آدھی نماز معاف ہونے کا یہ مطلب ہے کہ جن نمازوں میں چار رکعت فرض ہیں۔ ان میں دو رکعت فرض نماز ادا کی جائے۔ فجر اور مغرب کی نماز سفر میں بھی پوری پڑھی جاتی ہے۔
(3) روزے دار کو کھانے کی دعوت دی جائے۔ تو وہ اپنے روزے کا اظہار کرسکتا ہے۔ یہ ریا میں شامل نہیں۔
(4) مسافر بچے کو دودھ پلانے والی اور حاملہ کے لئے رعایت ایک ہی سیاق میں بیان ہوئی ہے۔ مگر تفصیل میں فرق ہے کہ مسافر کوروزہ معاف ہے۔ مگر قضا ادا کرنا واجب ہے۔ اور مرضعہ اور حاملہ کی بابت علماء کی چار آراء ہیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ ان کےلئے فدیہ ہی کافی ہے۔ بعد میں قضا نہیں دوسری رائے یہ ہے کہ ان پر نہ قضا ہے نہ فدیہ یہ رائے حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ جو انھوں نے المحلی (مسئلہ نمبر 770) میں بیان کی ہے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ فدیہ طعام کے علاوہ بعد میں وہ قضا بھی دیں چوتھی رائے یہ ہے کہ وہ مریض کے حکم میں ہیں۔ وہ روزہ چھوڑدیں انھیں فدیہ دینے کی ضرورت نہیں۔ اور بعد میں قضا دیں مولانا محمد علی جانباز رحمۃ اللہ علیہ نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ دیکھئے: (إنجاز الحاجة، شرح ابن ماجة:566/5) نیز سعودی علماء کی بھی یہی رائے ہے۔ دیکھئے: (فتاویٰ اسلامیہ (اُردو)2/203 ،مطبوعہ دارالسلام)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وقال الترمذي: " حديث حسن، ولا نعرف
لأنس بن مالك غير هذا الحديث "، وصححه ابن خزيمة) .
إسناده: حدثنا شَيْبَانُ بن فَروخ: ثنا أبو هلال الرَّاسِبِي: ثنا ابن سَوَادَةَ
القُشَيْرِيّ عن أنس بن مالك.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير أبي هلال الراسبي
- واسمه محمد بن هلال-، وهو مختلف فيه، وقد قال فيه الحافظ:
" صدوق فيه لين ". وقد خولف في إسناده كما يأتي.
والحديث أخرجه الترمذي (715) ، وابن ماجه (1/511) ، وابن خزيمة في
" صحيحه " (3/268/2044) ، وأحمد (4/347 و 5/29) ، والبيهقي (4/231)
من طرق عن أبي هلال... به. وقال الترمذي:
" حديث حسن، ولا نعرف لأنس بن مالك هذا عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غير هذا
الحديث الواحد ".
قلت: وقد خالفه في إسناده وهيب فقال: ثنا عبد الله بن سوادة القشيري عن
أبيه أن أنس بن مالك- رجل منهم- قال... فذكره.
رواه البيهقي.
وهذا إسناد صحيح؛ فإن سوادة القشيري ثقة من رجال مسلم.
ووهيب- وهو ابن خالد- ثقة من رجال الشيخين.
وله فيه إسناد آخر، فرواه عن أيوب عن أبي قلابة عن رجل من بني عامر
- قال أيوب: فلقيته فسألته، فحدثنيه عن رجل منهم-:
أنه أتى المدينة... الحديث نحوه.
أخرجه البيهقي، وقال:
" ورواه معمر عن أيوب عن أبي قلابة عن رجل من بني عامر أن رجلاً- يقال
له: أنس- حدثه... ".
قلت: وصله عبد الرزاق في "المصنف " (7560) عن معمر... به؛ إلا أنه لم
يقل: يقال له: أنس.
وقد تابعه إسماعيل ابن عُلَيَّةَ: حدثنا أيوب... به مثل رواية وهيب.
أخرجه أحمد (5/29) ، وابن خزيمة (2042) .
وسفيان الثوري؛ إلا أنه قال: عن أيوب عن أبي قلابة عن أنس... به.
أخرجه ابن خزيمة أيضاً (2043) ، والنسائي (1/316) .
وقد اختلف فيه على أبي قلابة على وجوه أخرى، ذكرها البيهقي، وأطال
النسائي النفس في تخريجها، منها: ما أخرجه هو، والدارمي (2/10) من طريق
الأوزاعي قال: أخبرني يحيى قال: حدثني أبو قلابة قال: حدثني أبو المهاجر قال:
حدثني أبو أمية- يعني: الضَّمْري-:
أنه قدم على النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... فذكره نحوه.
وهذا إسناد صحيح متصل، لكن قوله: أبو المهاجر! وهم من الأوزاعي؛ كما
قال ابن حبان وغيره، والصواب: أبو المهلب؛ وهو ثقة من رجال مسلم.