تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) رمضان میں عذرشرعی کی بنا پر جو روزے چھوٹ جایئں ان کی قضا سال بھر میں کسی وقت بھی دی جا سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ روزے شوال ہی میں رکھے جائيں۔
(2) ام المومنین چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا میں اس لئے تاخیر فرماتی تھیں۔ کہ ایسا نہ ہو کہ رسول اللہ ﷺ کو مقاربت کی خواہش ہو۔ اور وہ روزے کی وجہ سے نبی کریمﷺ کی خدمت سے محروم رہ جایئں۔ ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا شعبان میں اس لئے روزے رکھ لیتی تھیں۔ کہ نبی کریمﷺ اس مہینے میں نفلی روزے کثرت سے رکھتے تھے۔ چنانچہ تاخیر کی وجہ باقی نہیں رہتی تھی۔ جو دوسرے مہینوں مہینوں میں ہوتی تھی۔
(4) عورت کو چاہیے کہ خاوند کو خوش رکھنے کےلئے ہر ممکن کوشش کرے۔ بشرط یہ کہ شرعی طور پر ناجائز کام کا ارتکاب نہ کرنا پڑے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وابن خزيمة في
"صحاحهم "، وابن الجارود في "المنتقى") .
إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة عن مالك عن يحيى بن سعيد عن أبي
سلمة بن عبد الرحمن: أنه سمع عائشة رضي الله عنها تقول... فذكره.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي.
والحديث في "الموطأ" (1/286) .
وأخرجه البخاري (4/154) ، ومسلم (3/154- 155) ، وابن ماجه
(1/512) ، والبيهقي (4/252) من طرق أخرى عن يحيى بن سعيد... به.
وله طريق أخرى عن أبي هريرة، خرجتها في "الإرواء" (944) .
والحديث أخرجه عبد الرزاق أيضاً في "مصنفه " (7676) ، وكذا ابن أبي
شيبة في "مصنفه " (3/98) .
وله عندهما طريق أخرى عن عائشة رضي الله عنها.
الإرواء (944)