تشریح:
فوائد ومسائل:
(1) اگر دو شخص اپنی اپنی بکریاں ملا کر ایک ریوڑ بنا لیں تو انہیں خلیط کہا جاتا ہے ۔ یہ اشتراک اس صورت میں معتبر ہے جب دونوں ریوڑوں کا چرواہا، باڑا، پانی کا انتظام اور افزائش نسل کے لیے سانڈ مشترک ہو۔ (موطأ إمام مالك، الزکاة، باب صدقة الخلطاء: 1؍242) اگر اشتراک اس قسم کا ہو کہ ہر فریق کی اپنی اپنی بکریاں ہیں تو اسے خلطة (اختلاط) کہتے ہیں۔ اگر ہر بکری مشترک ہو مثلا دو آدمیوں نے پیسے ملا کر چند بکریاں خرید لیں تو یہ خلطہ نہیں شرکہ (اشتراک) ہے ۔ برابری کی بنیاد پر حساب کتاب کرنے کی مثال یہ ہے کہ چالیس چالیس بکریوں والے دو افراد نے اختلاط کرکے اپنا ایک ریوڑ بنالیا۔ زکاۃ وصول کرنے والے نے جس شخص کی بکریوں میں سے زکاۃ کی بکری وصول کی، دوسرا آدمی اسے آدھی بکری کی قیمت ادا کرے گا۔ اگر بکریوں میں کمی بیشی ہو تو اسی نسبت سے حساب کر کے ایک دوسرے کو ادائیگی کردیں گے۔ مصدق زکاۃ دینے والا اگر اپنی خوشی سے عمدہ جانور یا سانڈ دینا چاہے تو اس سے وصول کر لیا جائے لیکن زکاۃ وصول کرنے والا خود طلب نہ کرے۔ اگر اس لفظ کو مُصَدِّقْ (زکاۃ وصول کرنے والا) پڑھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر عامل کسی فائدے کے پیش نظر عیب دار یا بوڑھا جانور لینا پسند کرے تو زکاۃ ادا کرنے والا گناہ گار نہیں، مثلاً: ممکن ہے کہ ایک جانور لنگڑا ہو لیکن اس میں گوشت زیادہ ہو یا وہ عمدہ نسل کا ہونے کی وجہ سے دوسرے جانوروں سے بہتر سمجھا جاتا ہو اس طرح بیت المال کو یا جس مستحق کے حصے میں وہ آئے اسے زیادہ فائدہ حاصل ہو جائے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : ولأكثر فقرات الحديث أو كثير منها شاهد من حديث ابن عمر رضى الله عنه . قال : " كتب رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) كتاب الصدقة فلم يخرجه إلى عماله حتى قبض فقرن بسيفه فعمل به أبو بكر حتى قبض ثم عمل به عمر حتى قبض فكان فيه : " في خمس من الإبل شاة . . . " الحديث بطوله . أخرجه أصحاب السنن والدارمي ( 1 / 381 ) وابن أبي شيبة ( 3 / 121 ) والحاكم ( 1 / 392 - 394 ) والبيهقي ( 4 / 88 ) وأحمد ( 2 / 14 و 15 ) من طريق سفيان بن حسين عن الزهري عن سالم عنه . وقال الحاكم : " وتصحيحه على شرط الشيخين حديث عبد الله بن المبارك عن يونس بن يزيد عن الزهري وإن كان فيه أدنى إرسال فإنه شاهد صحيح لحديث سفيان بن حسين " . ثم ساقه هو والدارقطني ( ص 209 ) عنه عن ابن شهاب قال : " هذه نسخة كتاب لرسول الله التي كتب الصدقة وهي عند آل عمر ابن الخطاب قال ابن شهاب : أقرأنيها سالم بن عبد الله بن عمر فوعيتها على وجهها وهي التي انتسخ عمر بن عبد العزيز من عبد الله بن عمر وسالم بن عبد الله حين أمر على المدينة فأمر عماله بالعمل بها وكتب بها إلى الوليد فأمر الوليد عماله بالعمل بها ثم لم يل الخلفاء يأمرون بذلك بعده ثم أمر بها هشام فنسخها إلى كل عامل من المسلمين وأمرهم بالعمل بما فيها ولا ينقدونها وهذا كتاب يفسر " . لا يؤخذ في شئ من الإبل الصدقة حتى تبلغ خمس ذود فإذا بلغت خمسا فيها شاة . . . " الحديث بطوله . وقد تابعه سليمان بن كثير عن الزهري عن سالم عن اببه به . أخرجه البيهقي وروى عن البخاري أنه قال : " الحديث أرجو أن يكون محفوظا وسفيان بن حسين صدوق