تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) جو مال زکاۃ یا صدقے کے طور پر دیا جائے ادا کرنے والے کے قبضے سے نکل کر اس کی حیثیت تبدیل ہو جاتی ہے۔
(2) اسلامی حکومت کی طرف سے جن افراد کو زکاۃ وصول اور تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے، ان کی محنت کا حق ادا کیا جانا چاہیے۔
(3) دینی کام کرنے والے کو مناسب تنخواہ یا وظیفہ دیا جانا چاہیے، یہ اسلامی معاشرے کا فرض ہے جو اسلامی حکومت قائم ہونے کی صورت میں بیت المال کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے ورنہ عام مسلمانوں کو خود یہ فرض ادا کرنا چاہیے۔
(4) اسلامی سلطنت کا دفاع بھی زکاۃ و صدقات کا ایک اہم مصرف ہے۔ اس میں فوجیوں کی تنخواہیں، ان کے لیے ضروری اسلحہ کی فراہمی اور ان کی ٹریننگ کے اخراجات بھی شامل ہیں۔
(5) جس مستحق کو زکاۃ کے طور پر کوئی جانور (اونٹ، بکری وغیرہ) یا سونے، چاندی کا کوئی زیور دیا جائے وہ اسے فروخت کر سکتا ہے۔ خریدنے والے کے لیے وہ زکاۃ کا مال شمار نہیں ہوگا، البتہ صدقہ دینے والا صدقہ لینے والے سے وہ چیز نہیں خرید سکتا جو اس نے اسے صدقے کے طور پر دی ہے۔ (صحیح البخاري، الزکاۃ، باب ھل یشتری صدقته؟ ولا باس ان یشتری صدقة غیرہ .....،حدیث:1489)۔
(6) ایک غریب آدمی کسی خوشحال آدمی کو کوئی تحفہ دے تو یہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں کہ اسے یہ چیز صدقہ کے طور پر ملی ہے یا دوسرے طریقے سے۔ تحفہ وصول کرنے والے کے لیے اس کی حیثیت صدقے کی نہیں، اس لیے اسے وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(7) دیوالیہ (غارم) سے مراد وہ شخص بھی ہو سکتا ہے جس پر اتنا زیادہ قرض ہو جائے کہ وہ اسے ادا کرنے کے قابل نہ رہے اور اس کی ملکیت بھی اتنی نہ ہو کہ فروخت کر کے قرضہ ادا کیا جا سکے۔ اور وہ شخص بھی مراد ہو سکتا ہے جس نے قرض کے سلسلے میں کسی کی ضمانت دی اور مقروض نے مقررہ وقت پر ادائیگی سے انکار کر دیا یا فرار ہو گیا، اس طرح ضامن کو وہ رقم ادا کرنی پڑ گئی۔ اسی طرح حادثاتی طور پر کوئی شخص مفلس ہوجائے، مثلاً: کسی نے باغ کا پھل خریدا تھا، طوفان سے پھل ضائع ہو گیا اور رقم اس کے ذمے رہ گئی، ایسے شخص کا نقصان بھی زکاۃ و صدقات سے پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح اور بھی صورتیں ہو سکتی ہیں، وہ سب ’’غارم‘‘ میں شامل ہوں گی۔
الحکم التفصیلی:
قلت : " وكأنه أشار بذلك إلى ترجيح المرسل لكن قد ذكر البيهقي مثل قول أبي داود هذا ولكنه زاد عليه أن الثوري قال تارة عن رجل من أصحاب النبي ( صلى الله عليه وسلم ) ورواه أبو الأزهر السليطي عن عبد الرزاق عن معمر والثوري عن زيد بن أسلم كما رواه معمر وحده " . ثم ساق إسناده إلى أبي الأزهر به . فكأنه أشار بذلك إلى ترجيح الموصول وجزم بذلك الحاكم فقال : ( حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه لإرسال مالك إياه . عن زيد بن أسلم " ثم ساقه من طريق مالك ثم قال : " هو صحيح ( يعني موصولا ) فقد يرسل مالك الحديث ويصله أو يسنده ثقة والقول فيه قول الثقة الذي يصله ويسنده " . قلت : ووافقه الذهبي وهو الراجع عندي لعلم تفرد معمر بوصله كما تقدم في كلام البيهقي وقال ابن عبد البر : " قد وصل هذا الحديث جماعة من رواية زيد بن أسلم " . ذكر . المنذري في " مختصره " ( 2 / 235 ) عنه وأقره وذكر الحافظ في " التلخيص " ( ص 276 ) بعد أن حكى الاختلاف فيه على زيد وعزا رواية معمر الموصولة للبزار أيضا : أنه صححه جماعة . قلت : وممن صححه ابن خزيمة فأخرجه في " صحيحه " ( ق 242 / 2 ) . هذا وأما اللفظ الأول فلم يروه ابن ماجه ثم هو ضعيف . أخرجه أبو داود وكذا الطحاوي ( 1 / 306 ) وابن أبي شيبة ( 4 / 58 ) والبيهقي ( 7 / 22 ، 23 ) وأحمد ( 3 / 31 ، 40 ، 97 ) من طرق عن عطية عن أبي سعيد به
قلت : وعطية ضعيف وقال البيهقي عقبه : ( وحديث عطاء بن يسار عن أبي سعيد أصح وليس فيه ذكر ابن السبيل " .