تشریح:
(1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کی غمی خوشی میں شریک ہوتے تھے۔ اس طرح ہر قائد اور سربراہ کو اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کی خوشی غمی کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ اپنائیت کا سلوک کرنا چاہیے۔
(2) فوت ہونے والے کے پسماندگان کو ایسے انداز سے تسلی تشفی دینی چاہیے جس سے ان کے غم میں تخفیف ہو۔ ایسا انداز اختیار کرنے اور ایسی بات کہنے سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے اس کے غم میں اضافہ ہو اور اسے تکلیف ہو۔
(3) اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ثبوت ہے۔
(4) فوت ہونے کے بعد انسان عالم آخرت میں داخل ہو جاتا ہے، اس لیے وہاں اسے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے اور اس کے دیدار کا شرف حاصل ہو سکتا ہے۔
(5) اس حدیث سے شہداء کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔
(6) حضرت عبداللہ بن حرام رضی اللہ عنہ کا مقام عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے خود ان کی خواہش دریافت کی۔
(7) شہادت کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ شہید دوبارہ اس کے حصول کے لیے دنیا میں آنے کی خواہش رکھتا ہے۔ شہید کے علاوہ کوئی اور جنتی دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش نہیں رکھتا۔
(8) فوت ہونےوالوں کا دنیا سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے اور وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آ سکتے اور اس سے ’’عقیدہ تناسخ ارواح‘‘ کا بھی رد ہوتا ہے۔
(9) شہداء کی زندگی بھی دوسرے لوگوں کی طرح برزخی زندگی ہے، دنیوی نہیں۔ اس زندگی میں وہ جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں جنت میں کھاتی پیتی اور اس کی نعمتوں سے متمتع ہوتی ہیں۔ (صحيح مسلم، الامارة، باب بيان ان ارواح الشهداء في الجنة، حديث:1887)