تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) نکاح کا تعلق بہت اہم تعلق ہے جس کی وجہ سے ایک مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے حلال ہوجاتے ہیں اور ذمہ داریاں قبول کرتے ہیں۔ اسی تعلق کی بنا پر ان کی اولاد جائز قرار پاتی ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر بہت سے ایسے احکام نازل ہوئے ہیں جن اس کا تقدس قائم رہے۔
(2) نکاح کا تعلق قائم رکھنے یا منقطع کرنے کا تعلق زبان کے الفاظ سے ہے،اس لیے اس اہم تعلق کو مذاق کا نشانہ نہیں بننا چاہیے۔
(3) نکاح، طلاق اور رجوع میں مذاق کا دعویٰ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ کوئی شخص مذاق کا دعویٰ کرکے اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل نہ کرے۔ عین ممکن ہے کہ ایک مرد کسی عورت سے نکاح کرے، بعد میں کہ دے کہ میں نے مذاق میں نکاح کیا تھا جب کہ عورت نے سچے دل سے اسے زندگی کا ساتھی تسلیم کیا ہے۔ اس صورت میں اس واقعہ کو مذاق تسلیم کرلینا عورت پر ظلم اور مرد کو شتر بےمہار بنا دینےکے مترادف ہے۔ اسی طرح اگر طلاق میں مذاق کا دعویٰ تسلیم کرلیا جائے تو طلاق کا پورا نظام ہی کالعدم ہوجائے گا۔
(4) ایک شرعی ذمہ داری قبول کرتے وقت یا اس سے دست بردار ہوتے وقت انسان کو اچھی طرح سوچ سمجھ کراس کے نتائج پر غور کرلینا چاہیے تاکہ بعد میں ندامت اور پریشانی نہ ہو۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث حسن، وقال الترمذي: " حديث حسن غريب "، ووافقه الحافظ، ومن قبله الخطابي، وصححه ابن الجارووالحاكم) .
إسناده: حدثنا القعنبي: ثنا عبد العزيز- يعني: ابن محمد- عن عبد الرحمن ابن حبيب عن عطاء بن أبي رَباح عن ابن ماهِك عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير ابن حبيب- وهو ابن أرْدكَ المدني-، وقد روى عنه جمع من الثقات، ولذلك وثقه ابن حبان والحاكم. لكن
قال النسائي: " منكر الحديث ". ولينه الذهبي والعسقلاني.
لكن لحديثه شاهد مرسل صحيح الإسناد، وشواهد أخرى موصولة، خرجتها في " الإرواء " (1826) .
والحديث أخرجه سعيد بن منصور (3/373/1603) : نا عبد العزيز بن محمد الدراوردي... به. وراجع المصدر السابق.
الإرواء (1826)