تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) انسان کےدل میں مختلف خیالات آتے رہتے ہیں جن میں اچھے خیالات بھی ہوتے ہیں اوربرے بھی۔ یہ جب تک خیالات کی حدتک رہیں ان پر مؤاخذہ نہیں ہے۔
(2) جب خیال عزم کے درجے پر پہنچ جائے تو نیک عزم کا ثواب ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص برے کام کا پروگرام بناتا ہے لیکن کسی وجہ سے وہ پروگرام ناکام ہوجاتا ہے تو اس نے جس حد تک کوشش کی ہے اس کا گناہ ہوگا، مثلاً: ایک شخص پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن وہ بچ گیا تو حملہ آور کو گناہ بہر حال ہوگا اگرچہ وہ قتل نہیں کرسکا۔ ارشاد نبوی ہے: ’’جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابل آ جائیں تو قاتل اور مقتول (دونوں) جہنم میں جائیں گے۔‘‘عرض کیا گیا : یہ تو قاتل ہے (اس لیے مجرم ہے) مقتول(کو سزا ملنے) کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: ’’وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کی شدید خواہش رکھتا تھا۔‘‘ (صحیح البخاري، الفتن، باب إذا التقی المسلمان بسیفیهما، حدیث:7083)
(3) بعض اعمال کا تعلق صرف دل سے ہے، مثلاً محبت، نفرت، خوف وغیرہ ، ان میں سے جو چیزدل میں بیٹھ جاتی ہے اور دوسرے اعمال پراثر انداز ہوتی ہے، اس پر ثواب و عذاب ملتا ہے، مثلاً: اللہ سے محبت، رسول اللہﷺ سے محبت، قرآن کا احترام، یا کسی نیک کام سے نفرت یا کسی نیک آدمی سے بغض وغیرہ۔ ایمان، کفر، اخلاص اور نفاق کا تعلق اسی قسم سے ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه
الترمذي. وأحد أسانيد البخاري إسناد المصنف) .
إسناده: حدثنا مسلم بن إبراهيم: ثنا هشام عن قتادة عن زُرَارَةَ بن أبي أوفى
عن أبي هريرة.
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه بنحوه كما يأتي.
والحديث أخرجه البخاري (9/323) ... بإسناد المصنف؛ بلفظ:
" إن الله تجاوز عن أمتي ما حدثت به أنفسها؛ ما لم تعمل أو تتكلم ".
وأخرجه مسلم (1/82) ، وأحمد (2/281) من طريق وكيع: حدثنا مِسْعَرٌ
وهشام عن قتادة... به؛ وزاد أحمد:
قال هشام: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... ووقفه مسعر.
قلت: وفي هذا نظر! فقد أخرجه أحمد (2/255) - عن يزيد؛ وهو ابن هارون-،
والحميدي (1173) ، وعنه البخاري (5/121) - عن سفيان؛ وهو ابن عيينة- عن
مسعر... بلفظ: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
فلعل قوله: (وقفه) تحرف على بعض الرواة، والصواب: (رفعه) ، فقد رواه
هكذا البخاري (11/464- 465) : حدثنا خلاد بن يحيى: حدثنا مسعر... عن
أبي هريرة يرفعه قال... فذكره.
ويشهد له: أنه رواه جمع آخر عن قتادة... به مرفوعاً: أخرجه مسلم
والترمذي (1183) - وقال: " حديث حسن صحيح "-، والنسائي أيضاً، وابن
ماجه (1/690) ، وابن أبي شيبة (5/53) ، والبيهقي (7/350) ، وأحمد
(2/393 و 425 و 474 و 481 و 491) ؛ وزاد ابن ماجه:
" وما استكرهوا عليه "!
وهي زيادة شاذة، لكن لها شواهد فراجع "الإرواء " (82) .
الإرواء (2062)