تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) اگر کوئی آمدنی دینے والی چیز خریدی جائے اور پھر واپس کر دی جائے تو جتنے دن وہ چیز خریدار کے پاس رہی ہے اور اس نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے واپسی کے وقت اس فائدے کا کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جائے گا۔ اس قانون سے صرف دودھ دینے والا جانور مستثنیٰ ہے جس کو واپس کرتے وقت ایک صاع کھجوریں ساتھ دی جائیں گی۔
(2) اگر خریدار کے پاس جانور مر جائے یا کوئی دوسری چیز خراب ہو جائے یا تباہ ہو جائے تو یہ نقصان خریدار برداشت کرے گا، اس لیے اگر خریدار کو اس سے کوئی آمدنی ہوتی ہے تو وہ بھی خود رکھے گا، خریدی ہوئی چیز واپس کرتے وقت اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بیچنے والے کو واپس نہیں کرے گا۔
(3) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ یہی روایت سنن ابی داؤد (3510) میں بھی ہے، وہاں ہمارے محقق نے اس کی بابت یوں لکھا ہے کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے البتہ سابقہ روایت (3509) اس سے کفایت کرتی ہے لہٰذا مذکورہ روایت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک بھی سنداً ضعیف ہونے باوجود معناً صحیح اور قابل عمل ہے، علاوہ ازیں مذکورہ روایت کو دیگر محققین نے حسن قرار دیا ہے۔ -دیکھیے: (صحيح سنن ابن ماجه للألباني ،رقم:1836،والموسوعة الحديثة مسندالإمام أحمد:40/ 272، 273)
الحکم التفصیلی:
قلت : ورجاله كلهم ثقات رجال الشيخين غير مخلد هذا وثقه ابن وضاح وابن حبان . وقال البخاري : " فيه نظر " . وقال الحافظ في " التقريب " : " مقبول " . قلت : يعني عند المتابعة وقد توبع في هذا الحديث فقال مسلم بن خالد الزنجي ثنا هشام بن عروة عن أبيه عنها : " أن رجلا ابتاع غلاما فأقام عنده ما شاء الله أن يقيم ثم وجد به عيبا فخاصمه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فرده عليه فقال الرجل : يا رسول الله قد استغل غلامي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " : الخراج بالضمان " . أخرجه أبو داود ( 3510 ) وابن ماجه ( 2243 ) والطحاوي ( 2 / 208 ) وابن الجارود ( 626 ) والحاكم ( 2 / 15 ) وقال : " صحيح الإسناد " . ووافقه الذهبي . قلت : وفيه نظر فان الزنجي وإن كان فقيها صدوقا فانه كثير الأوهام كما قال الحافظ في " التقريب " . والذهبي نفسه قد ترجمه في " الميزان " وساق له أحاديث مما أنكر عليه ثم ختم ذلك بقوله : " فهذه الأحاديث وأمثالها ترد بها قوة الرجل ويضعف " . قلت : وقد تابعه على المرفوع منه عمر بن علي المقدمي عنه هشام بن عروة به أخرجه البيهقي ( 5 / 322 ) . قلت والمقدمي هذا ثقة لكنه كان يدلس تدليسا سيئا كما هو مذكور في ترجمته فمن الجائز أن يكون تلقاه عن الزنجي ثم دلسه . فلا يتقوى الحديث بمتابعته وإنما يتقوى بالطريق التي قبله لا سيما وقد تلقاه العلماء بالقبول كما فكر الإمام أبو جعفر الطحاوي