تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح قرار دیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابن ماجۃ بتحقیق الدکتور بشار عواد رقم: 2348ں و صحیح سنن أبي داؤد (مفصل) للألبانی رقم: 1963، 1964) زمانہ جاہلیت میں عورتوں سے ناجائز تعلقات کا عام رواج تھا جب کہ بعض عورتیں طوائف کا پیشہ بھی اختیار کر لیتی تھیں۔ ایسی عورتوں کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تھا تو اس کے کئی دعویدار ظاہر ہوجاتےتھے۔ حدیث میں مذکورہ واقعہ میں بھی ممکن ہے کہ ان افراد نے اس بچے کی ماں سے اسلام قبول کرنے سے پہلے تعلق قائم کیا ہو لیکن جھگڑا مسلمان ہونے کے بعد پیدا ہوا ہو۔
(2) مشترکہ چیز کے دعویداروں میں کوئی ایک اگر اپنے دعوے یا اپنے حصے سے دست بردار ہو جائے تو چیز دوسرے کومل جائے گی۔ اگر تین دعویداروں میں سے دو آدمی تیسرے کے حق میں دست بردار ہو جائیں تو چیز اسے دے دی جائےگی۔
(3) یہ بچہ اگرچہ آزاد تھا لیکن پیش آمدہ صورت میں تینوں مدعی اس میں شریک تھے لہٰذا ہر مدعی کو اس کے تہائی حصے کا مالک قرار دیا گیا۔ اب چونکہ زندہ چیز کو حصے کرکے تقسیم کرناممکن نہیں اس لیے ضروری تھا کہ ہر ایک کو اپنے حصے کی قیمت ملے۔ کسی جانور وغیرہ کے متعلق بھی یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ جس شخص کو وہ چیز ملے وہ دوسروں کو ان کے حصوں کی قیمت ادا کر دے۔
(4) آزاد انسان قابل فروخت نہیں لہٰذا اس کی کوئی قیمت نہیں لیکن قتل خطا وغیرہ کی صورت میں اس کی دیت سو اونٹ مقرر کی گئی ہے لہٰذا حضرت علی ؓ نے اس مقدار کو اس کی قیمت کا متبادل قرار دے دیا۔
(5) جب کوئی ایسا مسئلہ پیش آجائے جس کےبارے میں قرآن وحدیث سے کوئی نص معلوم نہ ہو تو اجتہاد اور قیاس کی روشنی میں فیصلہ دیا جا سکتا ہے لیکن نص کی موجودگی میں قیاس جائز نہیں۔
(6) اگرچہ کثرت سے ہنسنے کی عادت بنا لینا مستحسن نہیں تاہم کوئی خوشی یا تعجب کی بات ہو جائے تو ہنس پڑنا عالم یا بزرگ کی شان کے خلاف بھی نہیں ۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وكذا قال الحاكم، ووافقه الذهبي)
إسناده: حدثنا مسدد: ثنا يحيى عن الأجلح عن الشعبي عن عبد الله بن الخليل عن زيد بن أرقم.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات؛ غير عبد الله بن الخليل- ويقال: ابن أبي الخليل- الحضرمي؛ لم يوثقه غير ابن حبان، وهو- إلى ذلك- قد اختلف عليه في إسناده ورفعه؛ كما بينه البيهقي في "سننه "، والمصنف كما يأتي بعد حديث.
والراجح عندي رفعه؛ للإسناد الآتي بعده؛ فإنه مرفوع وسالم من الاضطراب. والله أعلم. والحديث أخرجه الحاكم (2/207) ، وعنه البيهقي (10/267) من طريق
أخرى عن مسدد... به. وقال الحاكم:اتفق الشيخان على ترك الاحتجاج بالأجلح بن عبد الله الكِنْدي، وإنما نَقَمَا
عليه حديثاً واحداً لعبد الله بن بريدة، وقد تابعه على ذلك الحدَيث ثلاثة من الثقات، فهذا الحديث إذاً صحيح "، ووافقه الذهبي. وأخرجه النسائي (2/108) : أخبرنا عمرو بن علي قال: حدثنا يحيى... به. ثم أخرجه هو، وأحمد (4/374) ، والحميدي (785) من طرق أخرى عن
الأجلح... به.\ وأعله المنذري في "مختصره " بالأجلح؛ فقال:
" واسمه: يحيى بن عبد الله الكِنْدِي؛ ولا يحتج به "!
قلت: وهذا غلو منه رحمه الله تعالى؛ فالرجل مختلف فيه، ومن تكلم فيه؛ فإنما هو من قبل حفظه؛ والأرجح أنه حسن الحديث. وكان الأولى إعلاله بشيخه ابن الخليل كما فعل البيهقي؛ قال: " والأجلح قد روى عنه الأئمة: الثوري وابن المبارك ويحيى بن القطان؛ إلا أنه لم يَحْتَجَّ به الشيخان. وعبد الله بن الخليل يتفرد به