تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) عام طور پرغلام کے تصرف میں جو مال ہوتا ہے وہ آقا کا ہی ہوتا ہے جو وہ اسے اس کے فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں دیتا ہے۔ اس صورت میں جب غلام آزاد ہو گا تو مالک کا جومال اس تصرف میں تھا وہ مالک ہی لے گا۔
(2) بعض اوقات ایسا ہی ہو سکتا ہے آقا غلام کو اجازت دے کہ وہ محنت مزدوری کرکے جتنی رقم حاصل ہو اس سے اتنی رقم مجھے دے دیا کروں باقی جس طرح چاہو تم استعمال کرو اس صورت میں غلام کی جمع کی بچت غلام کی ملکیت ہوگئی۔ اور اگرغلام آزاد کیا گیا تو یہ رقم وہ اپنے پاس رکھے گا آقا کو واپس نہیں کرے گا۔
(3) اگر آقا مرتے وقت یوں کہے کہ میں تجھے اس شرط پرآزاد کرتا ہوں کہ تمہارے پاس جو مال ہے وہ مجھے دو گے تو وہ ادا کرنا پڑے گا۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين من طريق الليث وأما ابن لهيعة فإنه سئ الحفظ ولكنه مقرون . وأما تضعيف أحمد لعبيد الله بن أبى جعفر فهو رواية عنه وقد ذكر الذهبي في " الميزان " نحوها . وقال : " وروى عبد الله بن أحمد عن أبيه : ليس به بأس " . قلت : وهذا هو الأرجح الموافق لكلام الأئمة الآخرين فقد قال أبو حاتم والنسائي وابن سعد : " ثقة " . واحتج به الشيخان . * ( هامش ) * ( 1 ) الأصل " عبد " . ( * )