تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) جاہلیت میں زنا عام تھا۔ لونڈیوں سے زنا کوئی عیب شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ آزاد عورت سے زنا معیوب تو سمجھا جاتا تھا، تاہم اس قسم کے تعلقات بھی عام تھے۔
(2) لونڈی سے جس طرح آقا اولاد حاصل کرتا تھا، آقا کے مرنے کے بعد اس کا کوئی قریبی رشتے دار (بھائی وغیرہ) اس سے اولاد حاصل کرتا تھا، اسی طرح کوئی اجنبی بھی اس سے ناجائز تعلق قائم کرلیتا تھا، اور پھر اس کی اولاد کے بارے میں دعوی کردیتا کہ یہ میری اولاد ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان ہونے والوں میں اس قسم کے جھگڑے سامنے آئے، مثلاً: ایک شخص نے اسلام قبول کرنے سے پہلے ناجائز تعلقات قائم کیے اور اس کے نتیجے میں اولاد پیدا ہوئی۔ اسلام لانے کے بعد اس کی وراثت کا مسئلہ ہوا۔
(3) اس قسم کے واقعات میں پیدا ہونے والے بچے کے دو دعویدار پیدا ہو جاتے تھے۔ ایک عورت کا قانونی شوہر یا اس لونڈی کا اصل مالک، دوسرا وہ مرد جس نے اس آزاد عورت یا لونڈی سے زنا کیا ہوتا۔ دونوں اس کے باپ ہونے کے مدعی ہوتے تھے۔ یا ان دونوں کے بیٹے اس بچے کے بھائی ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے۔ جاہلیت میں اس کا فیصلہ قیافہ وغیرہ سے کیا جاتا تھا۔
(4) نبی اکرمﷺ نے یہ قانون بیان فرمایا:
(ا) اگر یہ بچہ جائز تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، یعنی لونڈی کا بچہ اس کے مالک سے ہے، یا آزاد عورت کا بچہ اس کے خاوند سے ہے تو وہ اپنے باپ کا وارث ہے کیونکہ اس کا نسب شرعاً معتبر ہے۔
(ب) یہ بچہ جس کا کہلاتا ہے (عورت کا خاوند یا لونڈی کا مالک)، اگر اس نے زندگی میں یہ کہہ دیا ہو کہ یہ بچہ میرا نہیں تو اسے اس کا بیٹا نہیں مانا جائے گا، اور اسے وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا۔
(ج) اگر یہ بچہ ناجائز تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، یعنی مرنے والے نے کسی آزاد عورت یا لونڈی سے زنا کیا تھا، اب اگر یہ شخص زندگی میں اعتراف بھی کرچکا ہو کہ یہ لڑکا مجھ سے پیدا ہوا ہے، اس لیے میرا بیٹا ہے، تب بھی اسے اس کا بیٹا تسلیم نہیں کیا جائے گا، نہ اسے وراثت میں حصہ ملے گا۔
الحکم التفصیلی:
قلت: وهذا إسناد حسن؛ كما قال البوصيري (ق 170/1) ؛ للخلاف المعروف في عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده.
ومحمد بن راشد- وهو المكحولي- صدوق يهم. والحديث أخرجه أحمد (2/181) : ثنا يزيد... به. ثم أخرجه (2/219) ، والدارمي (2/389- 390) ، وابن ماجه (2/168- 169) من طرق أخرى عن محمد بن راشد... به.