تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) سنت کو چھوڑ کر بدعتوں پر عمل کرنا گمراہی ہے۔
(2) اگر حکومتی ارکان بدعتوں کی ترویج کریں تو رعایا کو اس میں تعاون نہیں کرنا چاہیے۔علماء کو چاہیے کہ بدعت کی تردید کریں اور سنت سے روشناس کرائیں اور عوام کو چاہیے کہ بدعتوں سے بچتے ہوئے سنت پر عمل پیرا رہیں۔
(3) علمائے حق کا ہر دور میں یہی شیوہ رہا ہے کہ وہ حکومتی گمراہیوں کے مقابلے میں سنت پر عمل کرنے اور اس کی اشاعت کرنے میں ثابت قدم رہتے ہیں۔ اور ہر قسم کی سختیوں اور ترغیب و تحریص سے متاثر ہوئے بغیر حق کا اعلان کرتے ہیں جیسے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جبری طلاق کے مسئلے میں اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے خلق قرآن کے مسئلے میں استقامت کا مظاہرہ فرمایا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، رجاله رجال "الصحيح ". وأخرجه أبو عوانة في "صحيحه " من طريق المؤلف، وأخرجه مسلم أيضا. وقال الترمذى: " حديث حسن ") . إسناده: حدثنا مسدد: نا حماد بن زيد عن أبي عمران- يعني: الجَوْنِي- عن
عبد الله بن الصامت عن أبي ذر.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال البخاري؛ غير عبد الله ابن الصامت؛ فهو ثقة من رجال مسلم. وأبو عمران الجوني: اسمه عبد الملك بن حبيب الأزدي أو الكندي. والحديث أخرجه أبو عوانة في "صحيحه " (1/344) من طريق المؤلف، فقال:حدثنا أبو داود السجْزِيُ قال: ثنا مسدد... به. وأخرجه مسلم (2/120) من طرف أخرى عن حماد... به. ثم أخرجاه، وكذا الدارمي (1/279) ، والترمذي أيضا (1/332) ، والطحاوي
(1/213) ، والطيالسي (رقم 449) ، ومن طريقه البيهقي (2/301) ، وأحمد (5/149 و 163 و 169) من طرق أخرى عن أبي عمران الجوني... به. وقال الترمذي:"حديث حسن "
تم أخرجاه أيضا، والنسائي (1/126 و 138) ، والدارمي، والطحاوي، والبيهقي (2/300) ، وكذا البخاري في "الأدب المفرد" (ص 138 و 139) ، والطيالسي (رقم 454) ، وأحمد (5/147 و 160 و لملأ 1) من طرق أخرى عن عبد الله بن الصامت... به نحوه. وللحديث شواهد من رواية ابن مسعود وعبادة بن الصامت وشداد بن أوس وعامر بن ربيعة؛ وقد خرجتها في "الثمر المستطاب في فقه السنة والكتاب"،
ويأتي حديث الأوليْنِ منهم في الكتاب عقب هذا.