تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے۔ اور اس کے شواہد کا ذکر کیا ہے۔ لیکن ان شواہد کی صحت و ضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر حسن قراردیا ہے اور اس کی بابت سیر حاصل بحث کی ہے۔ محققین کی اس بحث سے تحسین حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ لہذا مذ کورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بناء پرقابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے۔ (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: ٢٥/ ٤٩٥ /٤٩٦، وصحيح أبي داؤد (مفصل) للألباني، رقم: ١٧١٥)
(2) عالم کو چاہیے کہ ہر مقام پر موقع کی مناسبت سے مسائل بیان کرے۔
(3) حج کے دوران میں وعظ و نصیحت کرنا اور مسائل بیان کرنا درست ہے۔
(4) وعظ یا مسائل بیان کرنے کے دوران میں مقام یا بلند چیز پر کھڑا ہونا مناسب ہےخاص طور پر جب کہ حاضرین کی تعداد زیادہ ہو تو منبر وغیرہ پر خطبہ دینا چاہیے۔ منبر نہ ہو تو زمین پر کھڑے ہوکر یا سواری پر بھی خطاب کیا جا سکتا ہے۔
(5) منی میں تین ستون بنے ہوئے ہیں۔ جنھیں کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ ہر ستون جمرہ کہلاتا ہے۔ بڑے جمرے کا نام جمرة العقبة ہے۔ مسجد خیف کی طرف سے آئیں تویہ سب آخر میں پڑتا ہے۔ اور اگر طريق المشاة پر چلتے ہوئے مکہ سے منی پہنچیں تو یہ سب سے پہلے آتا ہے۔ دس ذی الحجہ کو صرف اس کی رمی کی جاتی ہے نیز اس کی رمی کے بعد دعا نہ کرنا سنت ہے۔ درمیانی جمرے کو الحمرة الوسطي اور چھوٹے جمرے کو الجمرة الاولي کہتے ہیں۔ مسجد خیف سے جمرات کی طرف آئیں تو سب سے پہلے یہی آتا ہے نیز دس ذوالحجہ کے سوا ایام میں سب سے پہلے اس کی رمی کی جاتی ہے۔
(4) عام لوگ جمرات کو شیطان کہتے ہیں یہ درست نہیں۔ یہاں کنکریاں مارنا حج کی عبادت کا ایک حصہ ہے اور عبادت کی جگہ کو شیطان کہنا انتہائی نامناسب ہے۔
(5) جمرات پر بڑی بڑی کنکریاں پتھر یا جوتے مارنا سنت کے خلاف اور غلو ہے جس سے عمل کا ثواب ضائع ہوجاتا ہے۔
(6) کنکریوں کی مقدار کے لیے حدیث میں (حصي الخذف) کے الفاظ ہیں یعنی ایسی کنکریاں جنھیں دو انگلیوں میں پکڑ کر دور پھینکا جا سکےاس لیے ترجمہ ’’چھوٹی کنکریاں‘‘ کیا گیاہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث حسن) .
إسناده: حدثنا إبراهيم بن مهدي: حدثني علي بن مُسْهِرٍ عن يزيد بن أبي زياد: أخبرنا سليمان بن عمرو بن الأحوص.
قلت: وهذا إسناد فيه ضعف؛ سليمان بن عمرو بن الأحوص فيه جهالة، لم يوثقه غير ابن حبان، وروى عنه شَبِيبُ بن غَرْقَدٍ أيضاً. ويزيد بن أبي زياد- وهو الهاشمي مولاهم- سيئ الحفظ. وبه أعله المنذري.
لكن الحديث قد جاء كله أو جله مفرقاً في أحاديث:
فرمي الجمرة- وهي جمرة العقبة-؛ كما في الرواية الثانية في حديث جابر الطويل المتقدم (1663) . ومثله في رواية لمسلم في حديث ابن مسعود الآتي قريباً (1723) .
وقولها: ورجل من خلفه... أي: رديفه؛ في حديث جابر المشار إليه آنفاً. وفيه التكبير مع كل حصاة. ومثله في حديث عائشة الآتي قريباً (1722) . وسائره له طريق أخرى بلفظ: " يا أيها الناس! عليكم بالسكينة والوقار، وعليكم بمثل حصى الخذف ". أخرجه أحمد (5/379) من طريق ليث عن عبد الله بن شداد عن أم جندب
الأزْدِية: أنها سمعت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حيث أفاض قال... وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ وليث: هو ابن سعد الإمام. ويشهد له حديث جابر المتقدم برقم (1699) . والحديث أخرجه البيهقي (5/130) من طريق المصنف. ثم أخرجه هو (5/128) ، وابن ماجه (2/242 و 243) ، وأحمد (3/503 و 5/379) من طرق أخرى عن يزيد بن أبي زياد... به نحوه. ومن طرقه ما يأتي.