تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) ابرو کے مقابل رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ بالکل سامنے کھڑے نہیں ہوئے بلکہ تھوڑا سا ہٹ کر کھڑے ہوئے۔
(2) رمی کرتے وقت کنکریاں ایک ایک مارنی چاہییں۔
(3) ہر کنکری مارتے وقت الله اكبر کہنا چاہیے۔
(4) اس حدیث میں ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کیا جب کہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ کو بائیں طرف اور منی کو دائیں طرف رکھا۔ (صحيح البخاري، الحج ، باب من رمي جمرة العقبة فجعل البيت عن يساره، حديث: ١٧٤٩) حافظ ابن حجر ؒ نے صحیح بخاری کی روایت کو ترجیح دی ہےلیکن یہ بھی فرمایا ہے: اس بات پر اجماع ہے کہ جہاں بھی کھڑے ہوکر رمی کرے جائز ہےخواہ اس کی طرف منہ کرے یا اسے دائیں بائیں رکھے۔اس کی اوپر کی سمت سے یا نیچے کی سمت سے یا درمیان سے (فتح الباري٣/ ٧٣٤)
(5) سورۃ بقرہ کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ اس میں حج کے بہت سے مسائل مذکور ہیں، مطلب یہ ہے کہ قرآن کے احکام کا مطلب رسول اللہ ﷺ بہتر طور پر سمجھتے تھے اس لیے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے عمل کیا ہےہمیں بھی اسی طرح کرنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه الترمذي وابن الجارود) .
إسناده: حدثنا حفص بن عمر ومسلم بن إبراهيم- المعنى- قالا: ثنا شعبة عن الحكم عن إبراهيم عن عبد الرحمن بن يزيد عن ابن مسعود.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث أخرجه البخاري (3/458) ... بإسناد المصنف الأول. ثم أخرجه هو، ومسلم (4/79) ، والنسائي (2/50) ، وابن الجارود (475) ، والبيهقي (5/129) ، وأحمد (1/415 و 436) من طرق أخرى عن شعبة... به. وتابعه الأعمش عن إبراهيم... به؛ وزاد: من بطن الوادي؛ يكبر مع كل حصاة. أخرجه الشيخان والنسائي والبيهقي، وأحمد (1/456) . وتابعه جامع بن شَدَاد أبو صخرة عن عبد الرحمن بن يزيد... به مع الزيادة: أخرجه الترمذي (901) ، وابن محاجه (2/243) ، وأحمد (1/430 و 432) . وقال
الترمذي: " حديث حسن صحيح ". وتابعه يزيد النخعي عن عمه عبد الرحمن بن يزيد... به. أخرجه أحمد (1/458) .
وتابعه محمد بن عبد الرحمن بن يزيد عن أبيه... به؛ وزاد زيادة أخرى بلفظ: حتى إذا فرغ قال:اللهم! اجعله حجاً مبروراً، وذنباً مغفوراً ". أخرجه البيهقي وأحمد (1/427) عن ليث عنه. لكن ليث- وهو ابن أبي سليم- ضعيف.
ولهذه الزيادة شاهد من حديث ابن عمر: عَند البيهقي؛ وأعله بقوله:عبد الله بن حكيم ضعيف ".
قلت: بل هو هالك؛ فإنه الدَّاهِرِيّ، متهم. ولذلك؛ فإنه لا يصلح للاستشهاد به، وقد خرجته في "الضعيفة" (1107) .