تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کو قبر کے اندر کے حالات سے آگاہ کردیا گیا۔ اس کی حیثیت ایک معجزے کی ہے اور معجزہ نبی کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ ممکن ہے وحی کے ذریعے اطلاع دی گئی ہو۔
(2) اس واقعہ سے قبر میں عذاب کا بھی ثبوت ملتا ہے۔
(3) پیشاب سے بچنے کا مطلب یہ ہے کہ جسم اور لباس کو پیشاب کے چھینٹوں سے بچایا جائے اور پیشاب سے فارغ ہو کر مٹی یا پانی سے استنجا کیا جائے۔
(4) یہاں پیشاب سے مراد انسان کا پیشاب ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں اپنے پیشاب سے کے الفاظ ہیں۔ جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا ان کے پیشاب سے بھی بچنا ضروری ہے، البتہ گائے بھینس وغیرہ جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کے پیشاب کے بارے میں شریعت نے نرمی کی ہے تاہم صفائی کے نقطہ نظر سے ان کے پیشاب سے بھی اجتناب کرنا بہتر ہے
(5) کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا کا مطلب یہ ہے کہ پیشاب سے بچنا مشکل کا م نہ تھا۔ اگر ذرا سی توجہ اور احتیاط سے کام لیتا تو پیشاب کے چھینٹوں سے خود کو بچاسکتا تھا۔ (6) چغلی (نميمة) کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کی کہی ہوئی بات دوسرے کو بتائی جائے تاکہ دونوں میں جھگڑا ہوجائے یا انکی باہمی محبت ختم ہوجائے۔ یہ بات سچ بھی ہو تو اس طرح لگائی بجھائی کے طور پر ایک دوسرے کو جا بتانا سخت گناہ ہے۔ اور اگر جھوٹ ہوتو گناہ کی شناعت اور بڑھ جاتی ہے۔ کسی کے عیوب اس کی غیر موجودگی میں ذکر کرنا بھی چغلی (غیبت) اور بڑا گناہ ہے تاہم بعض اوقات کسی کی غیر موجودگی میں اس کے عیب کا ذکر جائز بھی ہوتا ہے۔ علماء نے جائز غیبت میں چھ امور ذکر کیے ہیں:
1۔ مظلوم کا حاکم یا کسی ایسے شخص کے پاس ظالم کی شکایت کرنا جو اسے سزا دے سکے یا ظلم سے منع کرے
2۔ کسی کو برائی سے روکنے کے لیے دوسرے سے مدد حاصل کرنا مقصود ہو جب کہ یہ امید ہو کہ یہ شخص اسے برائی سے روک سکتا ہے۔
3۔ مسئلہ پوچھتے وقت صورت حال کی وضاحت کے لیے۔
4۔ مسلمانوں کی خیر خواہی کرتے ہوئے کسی کے شر سے بچانا مقصود ہو تو اس کا عیب بیان کرنا ضروری ہے مثلاً: حدیث کے راوی کا ضعف بیان کرنا یا جب کسی سے رشتہ ناتا کرنے کاروبار میں شراکت کرنے یا اس کے پاس امانت رکھنے کے بارے میں مشورہ کیا جائے تو مشورہ دینے والے کو چاہئے کہ اگر ایسا شخص اس قابل نہیں تو مشورہ لینے والے کو حقیقت حال سے آگاہ کردے۔
5۔ جو شخص سرعام گناہ یا بدعت کا ارتکاب کرتا ہو اس کے اس عیب کو اس کی غیر موجودگی میں بیان کرنا جائز ہے تاکہ سب لوگ مل جل کر اس کو اس سے منع کرسکیں۔
6۔ کوئی شخص کسی جسمانی نقص یا عیب کی وجہ سے خاص نام سے معروف ہوجائےتو اس شخص کا ذکر اس نام سے کیا جا سکتا ہے جیسے لنگڑا یا ٹنڈا وغیرہ، بشرطیکہ اس سے توہین مقصود نہ ہو (رياض الصالحين باب بيان ما يباح من الغيبة )
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه، وأبو عوانة في
صحاحهم ، وصححه الترمذي) .
إسناده: ثنا زهير بن حرب، وهَناد بن السَّري قالا: ثنا وكيع: ثنا الأعمش
قال: سمعت مجاهداً يحدث عن طاوس عن ابن عباس.
وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه.
ثمّ قال أبو داود: قال هناد: يستتر مكان: يستنزه . حدثنا عثمان بن
أبي شيبة: ثنا جرير عن منصور عن مجاهد عن ابن عباس عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بمعناه
قال: ... كان لا يستتر من بوله . وقال أبو معاوية: يستنزه
والحديث أخرجه النسائي: أخبرنا هنّاد بن السري عن وكيع... به؛ إلا أنه
قال: يستنزه مثل رواية زهير.
(1/48)
وأخرجه الشيخان وأبو عوانة وبقية الأربعة والبيهقي من طرق كثيرة عن
وكيع... به. بعضهم قال: يستنزه ، والبعض: يستتر ، إلا رواية البيهقي
فبلفظ: يتوقى ؛ وكذلك هي في المستخرج على الصحيح لأبي نعيم. قال
الحافظ:
وهي مفسرة للمراد .
وتابعه عبد الواحد بن زياد عن الأعمش... به باللفط الأول: أخرجه مسلم
والدارمي.
ومحمد بن خازم... باللفظ الثاني: عند البخاري.
وقد خالف الأعمش: منصور؛ فرواه عن مجاهد عن ابن عباس... بإسقاط
طاوس من بينهما.
وكذلك رواه البخاري من طريق جرير كما رواه الصنف.
وإيرادهما على الوجهين- دون أي ترجيح- دليل على صحتهما عندهما.
ويؤيد ذلك: أن الطيأً لسي رواه (رقم 2646) عن شعبة عن الأعمش عن
مجاهد عن ابن عباس... مثل رواية جرير عن منصور.
وشعبة ثقة حجة؛ فروايته تؤيد أن الأعمش رواه على الوجهين معاً؛ كما قال
بعض المحققين المتأخرين.
الإرواء (178 و 283)