تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) انبیاء کرام علیہم السلام کا ایمان سب سے کامل ہوتا ہے۔ بعض اوقات اللہ تعالی انھیں ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرادیتا ہے جو دوسروں کے لیے غیب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہم السلام نے مردوں کے زندہ ہونے کا مشاہدہ کرنا چاہا تو یہ شک کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ علم الیقین سے عین الیقین کے درجے تک ترقی کریں۔
(2) ہم زیادہ شک کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن اس میں شک نہیں کرتے تو حضرت ابراہیم علیہم السلام کی عظمت کا اظہار ہے کہ انھیں اللہ تعالی نے موت کے بعد کی زندگی کا مشاہدہ کرادیا ہے۔
(3) حضرت لوط علیہ السلام نے قوم سے کہا تھا کہ اگر میرا کوئی مضبوط دنیوی سہارا ہوتا تو تم مجھ سے حیا سوز مطالبہ نہ کرتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت لوط علیہم السلام کو اللہ تعالی پر اعتماد نہیں تھا بلکہ یہ قوم کی اخلاقی پستی کا اظہار ہے کہ اگر میرا مضبوط دنیوی سہارا موجود ہوتا تو تم ان افراد کے ڈر سے اس بد تمیزی کی جرأت نہ کرتے لیکن تم اللہ سے نہیں ڈرتے۔ میرا اعتماد اللہ تعالی پر ہے جو تمہیں انسانوں کی نسبت کہیں زیادہ سزا دے سکتا ہے۔
(4) حضرت یوسف علیہم السلام کو اس لیے جیل جانا پڑا تھا کہ وہ ایک جرم کے ارتکاب سے انکار کررہے تھے جس کا ان سے مطالبہ کیا جارہا تھا۔ جب حکمرانوں پر ان کا خلوص سچائی اور ان کے کردار کی عظمت واضح ہوگئی اور انھیں ضرورت محسوس ہوئی کہ آنجناب کی صلاحیتوں سے استفادہ کریں تو قاصد رہائی کا حکم نامہ لے کر جیل آیا، اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کی عظمت کردار کا ایک اور پہلو سامنے آیا کہ انھوں نے اس وقت تک جیل سے باہر آنے سے انکار کردیا جب تک انکی بے گناہی باقاعدہ ثابت نہ ہوجائے۔ اور مجرم (عزیز مصر کی بیوی) کا جرم ثابت نہ ہوجائے۔
(5) رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ کیفیت میرے ساتھ پیش آتی تو میں اس وقت جیل سے باہر آجاتا اور اللہ کی رحمت سے امید رکھتا کہ وہ کسی اور انداز میں میری برات کا اظہار فرمادے گا۔ اس ارشاد کا مقصد حضرت یوسف علیہ السلام کی استقامت اور ان کے صبر کی تعریف ہے۔
(6) خاتم النبین ﷺ کا مقام تمام انبیاء کرام سے بلند و برتر ہے لیکن دوسرے انبیاء علیہم السلام کے کردار کے روشن پہلو بھی لائق تحسین ہیں۔ ان کی اہمیت وعظمت بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔
(7) دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف بھی عظمت کردار کا ایک پہلو ہے۔ علمائے کرام کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی خوبیوں کو دل سے تسلیم کریں۔ ان خوبیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کی عزت کریں اور ان سے محبت رکھیں۔ جس طرح ان کی غلطیوں پر تنقید کرتے ہیں ان اچھے کاموں کی تعریف اور ان میں تعاون بھی کریں۔ خواہ متعلقہ فرد کا تعلق ان کی پارٹی، تنظیم جماعت اور مسلک سے نہ ہو۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 483 :
أخرجه الإمام أحمد ( 2 / 232 ) : حدثنا محمد بن بشر حدثنا محمد بن عمرو حدثنا
أبو سلمة عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره .
و أخرج الشطر الثاني منه ابن جرير في " تفسيره " ( 12 / 139 ) و الطحاوي في
" مشكل الآثار " ( 1 / 136 ) و الحاكم ( 2 / 561 ) و قال : " صحيح على شرط مسلم
" . و أقره الذهبي ، و محمد بن عمرو إنما أخرج له مسلم متابعة و أخرجه الترمذي
( 4 / 129 ) و تمام ( ق 86 / 1 - 2 ) من طرق أخرى صحيحة عنه بتمامه و حسنه
الترمذي . و خالفهم خالد بن عبد الله في لفظ الحديث ، فرواه عن محمد بن عمرو
بتمامه إلا أنه قال : " رحم الله يوسف لولا الكلمة التي قالها : ( اذكرني عند
ربك ) ما لبث في السجن ما لبث " . أخرجه ابن حبان ( 1747 ) : أخبرنا الفضل ابن
الحباب الجمحي حدثنا مسدد بن مسرهد حدثنا خالد بن عبد الله به . قال الحافظ ابن
كثير في " تاريخه " ( 1 / 208 ) : " هذا منكر من هذا الوجه ، و محمد بن عمرو بن
علقمة له أشياء يتفرد بها ، و فيها نكارة ، و هذه اللفظة من أنكرها ، و أشدها .
و الذي في " الصحيحين " يشهد بلفظها " أي بإنكارها .
قلت : و يحتمل عندي أن تكون النكارة من شيخ ابن حبان : الفضل بن الحباب ، فإن
فيه بعض الكلام ، فقد ساق له الحافظ بن حجر في " اللسان " حديثا آخر بلفظ :
" من وسع على نفسه و أهله يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته " . و رجاله
كلهم ثقات ، فاستظهر الحافظ أن الغلط فيه من الفضل ، و قال : " لعله حدث به بعد
احتراق كتبه " . و إنما انصرفت عن نسبة النكارة إلى محمد بن عمرو ، لأنه قد
رواه عنه محمد بن بشر باللفظ الأول المحفوظ ، و ابن بشر ثقة حافظ ، و كذلك من
تابعه عند الترمذي و غيره . و عن نسبتها إلى خالد بن عبد الله و هو الطحان
الواسطي لأنه ثقة ثبت . و قد رويت هذه اللفظة من طريق أخرى واهية ، أخرجه ابن
جرير ( 12 / 132 ) فقال : حدثنا ابن وكيع : حدثنا عمرو بن محمد عن إبراهيم بن
يزيد عن عمرو بن دينار عن عكرمة عن ابن عباس مرفوعا بلفظ : " لو لم يقل - يعني
يوسف - الكلمة التي قال ، ما لبث في السجن طول ما لبث حيث يبتغي الفرج من عند
غير الله " . قال الحافظ ابن كثير في " تفسيره " ( 2 / 479 ) : " و هذا الحديث
ضعيف جدا ، لأن سفيان بن وكيع ضعيف ، و إبراهيم بن يزيد - هو الخوزي - أضعف منه
" . و رواها ابن جرير أيضا بسند صحيح عن الحسن و هو البصري مرسلا نحوه . و كذلك
رواه أحمد في " الزهد " ( ص 80 ) ، و في لفظ له : " يرحم الله يوسف لو أنا
جاءني الرسول بعد طول السجن لأسرعت الإجابة " . و سنده صحيح أيضا مرسلا .
و الحديث أخرجه البخاري ( 4 / 119 - استانبول ) و مسلم ( 1 / 92 و 7 / 98 )
و ابن ماجة ( 2 / 490 - 491 ) و أحمد ( 2 / 326 ) و ابن جرير من طريق أبي سلمة
ابن عبد الرحمن و سعيد بن المسيب عن أبي هريرة به نحوه و زادا في أوله :
" نحن أحق بالشك من إبراهيم إذ قال : *( رب أرني كيف تحيي الموتى ، قال : أو لم
تؤمن ؟ قال : بلى و لكن ليطمئن قلبي )* " . و روى مسلم من طريق الأعرج عن أبي
هريرة بلفظ : " يغفر الله للوط ، إنه آوى إلى ركن شديد " . و أخرجه أحمد ( 2 /
350 ) من طريق أخرى عن أبي هريرة به إلا أنه قال : " يرحم الله ... " .
و أخرجه ابن جرير ( 12 / 139 ) من طريق ابن إسحاق عن رجل عن أبي الزناد بلفظ :
" يرحم الله يوسف إن كان ذا أناة ، لو كنت أنا المحبوس ثم أرسل إلي لخرجت سريعا
، إن كان لحليما ذا أناة " . و هذا إسناد ظاهر الضعف . و قد جاء الحديث من
رواية ابن عباس نحوه ، و سيأتي برقم ( 1945 ) .