قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن ابن ماجه: كِتَابُ الْفِتَنِ (بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ)

حکم : ضعيف السند، صحيح المتن دون الجمل: " منعني القيلولة ... نبيكم "، " ما أنا ... سائلتكم "، " يظهر ... التشكي "، " بين عمان وبيسان "، " فزفر ثلاث زفرات " 

4074. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ قَالَتْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ وَكَانَ لَا يَصْعَدُ عَلَيْهِ قَبْلَ ذَلِكَ إِلَّا يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ فَمِنْ بَيْنِ قَائِمٍ وَجَالِسٍ فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ بِيَدِهِ أَنْ اقْعُدُوا فَإِنِّي وَاللَّهِ مَا قُمْتُ مَقَامِي هَذَا لِأَمْرٍ يَنْفَعُكُمْ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ وَلَكِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي خَبَرًا مَنَعَنِي الْقَيْلُولَةَ مِنْ الْفَرَحِ وَقُرَّةِ الْعَيْنِ فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَنْشُرَ عَلَيْكُمْ فَرَحَ نَبِيِّكُمْ أَلَا إِنَّ ابْنَ عَمٍّ لِتَمِيمٍ الدَّارِيِّ أَخْبَرَنِي أَنَّ الرِّيحَ أَلْجَأَتْهُمْ إِلَى جَزِيرَةٍ لَا يَعْرِفُونَهَا فَقَعَدُوا فِي قَوَارِبِ السَّفِينَةِ فَخَرَجُوا فِيهَا فَإِذَا هُمْ بِشَيْءٍ أَهْدَبَ أَسْوَدَ قَالُوا لَهُ مَا أَنْتَ قَالَ أَنَا الْجَسَّاسَةُ قَالُوا أَخْبِرِينَا قَالَتْ مَا أَنَا بِمُخْبِرَتِكُمْ شَيْئًا وَلَا سَائِلَتِكُمْ وَلَكِنْ هَذَا الدَّيْرُ قَدْ رَمَقْتُمُوهُ فَأْتُوهُ فَإِنَّ فِيهِ رَجُلًا بِالْأَشْوَاقِ إِلَى أَنْ تُخْبِرُوهُ وَيُخْبِرَكُمْ فَأَتَوْهُ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَإِذَا هُمْ بِشَيْخٍ مُوثَقٍ شَدِيدِ الْوَثَاقِ يُظْهِرُ الْحُزْنَ شَدِيدِ التَّشَكِّي فَقَالَ لَهُمْ مِنْ أَيْنَ قَالُوا مِنْ الشَّامِ قَالَ مَا فَعَلَتْ الْعَرَبُ قَالُوا نَحْنُ قَوْمٌ مِنْ الْعَرَبِ عَمَّ تَسْأَلُ قَالَ مَا فَعَلَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي خَرَجَ فِيكُمْ قَالُوا خَيْرًا نَاوَى قَوْمًا فَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَأَمْرُهُمْ الْيَوْمَ جَمِيعٌ إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ قَالَ مَا فَعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ قَالُوا خَيْرًا يَسْقُونَ مِنْهَا زُرُوعَهُمْ وَيَسْتَقُونَ مِنْهَا لِسَقْيِهِمْ قَالَ فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَيْنَ عَمَّانَ وَبَيْسَانَ قَالُوا يُطْعِمُ ثَمَرَهُ كُلَّ عَامٍ قَالَ فَمَا فَعَلَتْ بُحَيْرَةُ الطَّبَرِيَّةِ قَالُوا تَدَفَّقُ جَنَبَاتُهَا مِنْ كَثْرَةِ الْمَاءِ قَالَ فَزَفَرَ ثَلَاثَ زَفَرَاتٍ ثُمَّ قَالَ لَوْ انْفَلَتُّ مِنْ وَثَاقِي هَذَا لَمْ أَدَعْ أَرْضًا إِلَّا وَطِئْتُهَا بِرِجْلَيَّ هَاتَيْنِ إِلَّا طَيْبَةَ لَيْسَ لِي عَلَيْهَا سَبِيلٌ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هَذَا يَنْتَهِي فَرَحِي هَذِهِ طَيْبَةُ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا فِيهَا طَرِيقٌ ضَيِّقٌ وَلَا وَاسِعٌ وَلَا سَهْلٌ وَلَا جَبَلٌ إِلَّا وَعَلَيْهِ مَلَكٌ شَاهِرٌ سَيْفَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ

مترجم:

4074.

حضرت فاطمہ بنت قیس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دن رسول اللہ ﷺ نماز ادا کرنے کے بعد منبر پر تشریف فرما ہوئے، حالانکہ اس سے پہلے آپ ﷺ صرف جمعہ کے دن (خطبہ جمعہ کے لئے) منبر پر تشریف رکھتے تھے۔ لوگوں کو اس سے پریشانی ہوئی۔ کوئی کھڑا تھا، کوئی بیٹھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ (پھر فرمایا)‘‘ اللہ کی قسم! اس جگہ میں کوئی ایسی ترغیب و ترہیب والی بات بتانے کھڑا نہیں ہوا جس سے تمہیں فائدہ ہو۔ لیکن میرے پاس تمیم داری آئے اور مجھے ایک خبر دی جس سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ مجھے دوپہر کو خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک کی وجہ سے نیند نہیں ائی، اس لئے میں نے چاہا کہ تمہارے نبی کی خوشی سے تم سب کو آگا کر دوں۔ مجھے تمیم داری کے ایک چچازاد نے بتایا کہ (سمندری سفر کے دوران میں ) باد مخالف انہیں ایک غیر معروف جزیرے تک لے گئی۔ وہ جہاز کی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرے میں پہنچے۔ انہیں بڑی بڑی پلکوں والی ایک سیاہ فام چیز ملی۔ انہوں نے اسے کہا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں جساسہ ہوں۔ انہوں نے کہا: ہمیں (وضاحت سے) بتا۔ اس نے کہا: میں نہ تمہیں کچھ بتاؤں گی، نہ تم سے کچھ پوچھوں گی۔ لیکن یہ مندر جو تمہیں نظر آرہا ہے، اس میں جاؤ۔ وہاں ایک آدمی ہے جس کی شدید خواہش ہے کہ تم اسے کچھ بتاؤ اور وہ تمہیں کچھ بتائے۔ وہ اس مندر میں گئے اور اس شخص کے پاس جا پہنچے، دیکھا تو ایک بڑی عمر کا آدمی ہے جو خوب جکڑا ہوا ہے۔ اس سے بہت رنج و غم ظاہر ہو رہا ہے، بہت ہائے وائے کر رہا ہے۔ اس نے ان سے کہا: کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا: شام سے۔ اس نے کہا:عربوں کا کیا حال ہے؟ وہ بولے: ہم عرب کے لوگ ہیں، تو کس چیز کے بارے میں پوچھتا ہے؟ اس نے کہا: تمہارے اندر جو آدمی (نبی ﷺ) ظاہر ہوا ہے اس کا کیا حال ہے؟ وہ بولے: اچھا حال ہے۔ اس (نبی ﷺ) نے قوم کا مقابلہ کیا تو اللہ نے اسے قوم پر غلبہ عطا فر دیا۔ اب وہ سب (اہل عرب) متحد ہیں۔ ان کا معبود بھی ایک ہے اور دین بھی ایک ہے۔ اس نے کہا: زُغُر چشمے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: اچھا ہے۔ لوگ اس سے کھیتی کو پانی دیتے اور خود پینے کے لئے پانی بھرتے ہیں۔ اس نے کہا: بیسان اور عمان کے درمیان کے کھجوروں کے درختوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہر سال پھل دیتے ہیں۔ اس نے کہا: بحیرہ طبریہ کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: اس کا پنی اتنا زیادہ ہے کہ کناروں سے اچھلتا ہے۔ اس نے تین بار ٹھنڈی سانس لی، پھر بولا: اگر میں اس قید سے چھوٹ گیا تو زمین کا کوئی علاقہ نہیں رہے گا جس پر میرے یہ قدم نہ لگیں، سوائے طیبہ کے۔ اس پر میرا بس نہیں چلے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’یہ سن کر میری خوشی کی انتہا ہو گئی (بےحد خوشی ہوئی)۔ یہ (مدینہ منورہ ہی) طیبہ ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس کے ہر تنگ اور کھلے راستے پر، ہر میدان اور پہاڑ پر قیامت تک کے لئے فرشتے تلواریں سونتے کھڑے ہیں‘‘۔