تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) جو شخص دنیاوی مال و دولت اور جاہ وحشمت کا طالب اور حریص ہوتا ہے وہ دنیا کے لیے بہت محنت کرتا ہے۔ اسى جتنی بھی دولت ملے مزید کی حرص کی وجہ سے وہ مطمئن نہیں ہوتا اس لیے مفلس آدمی کی طرح پریشان رہتا ہے۔
(2) حریص آدمی دنیا کمانے کے لیے کئی پروگرام شروع کرتا ہےاور چاہتا ہے کہ ہر ایک پر پوری توجہ دے اور اسے جلد سے جلد اس کی کوشش کے نتائج حاصل ہوں لیکن فطری طور پر انسان کئی امور کی طرف بیک وقت برابر توجہ نہیں دے سکتا لہٰذا اسے اس کی حرص کے مطابق نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ اس طرح وہ دولت حاصل ہونے کے باوجود پریشان رہتا ہے۔
(3) آخرت کی طرف توجہ کرنے سے دنیا کی اہمیت کم ہوجاتی ہے لہٰذا قناعت کی دولت حاصل ہوجاتی ہےاور بندہ مطمئن اور خوش کن زندگی گزارتا ہے۔
(4) آخرت کو مقصود بنا لینے سے دنیا کے معاملات میں بھی نطم وضبط پیدا ہوجاتا ہے جس سے کاروبار میں بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں اور رزق میں برکت ہوتی ہے۔
(5) اللہ کی رضا کو مد نظر رکھنے والے کے دنیاوی معاملات بھی سلجھ جاتے ہیں اور حرص ختم ہوکر استغناء بھی پیدا ہوجاتا ہے۔
(6) اللہ تعالی نے انسان کے لیے جو رزق مقدر کر رکھا ہے وہ حلال ذرائع اختیار کرنے سے بھی مل جاتا ہے لہٰذا ناجائز طریقے اختیار کرنے سے سوائے پریشانیوں کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 671 :
أخرجه ابن ماجه ( 2 / 524 - 525 ) و ابن حبان ( 72 ) من طريق شعبة عن عمرو بن
سليمان قال : سمعت عبد الرحمن بن أبان بن عثمان ابن عفان عن أبيه عن زيد بن
ثابت مرفوعا .
قلت : و هذا إسناد صحيح رجاله ثقات كما قال في " الزوائد " .