تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) اس حدیث میں نبی ﷺ کی سخاوت کا بیان اور امت کے لیے ترغیب ہے۔
(2) احد ایک بڑا پہاڑ ہےاتنا سونا دو تین دن میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا اس کے باوجود نبی ﷺ کی خواہش یہی تھی کہ اگر اتنا مال بھی ہو تو وہ بھی دو تین دن میں تقسیم نہیں کيا جاسکتا، اس کے باوجود نبیﷺ کی خواہش یہی تھی کہ اگر اتنا مال بھی ہوتو وہ بھی دو تین دن میں مکمل طور پر تقسیم کردیاجائے۔
(3) قرض کی ادائیگی قرض خواہ کا حق ہےاس کی ادائیگی سخاوت سے اہم ہے۔
(4) قرض لینا دینا جائز ہے لیکن قرض لیتے وقت یہ نیت ہونی چاہیےکہ جلد از جلد ادا کردیا جائے گا۔
(5) سنبھال رکھنے کی ضرورت تب پیش آسکتی ہے جب ادائیگی کا مقرر وقت آنے میں کچھ وقفہ باقی ہو تاکہ جب قرض خواہ مطالبہ کرے تو ادئیگی کا اہتمام کرتے ہوئے ادائیگی میں تاخیر نہ ہوجائے۔
(6) اگر قرض خواہ قریب موجود ہوتو مقررہ وقت سے پہلے خود جاکر ادائیگی کردینا افضل ہے لیکن اگر اس سے رابطہ مشکل ہوتو رقم سنبھال مناسب ہے۔تاکہ ادائیگی جلد از جلد کی جاسکے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 5 / 246 :
أخرجه البخاري ( 7 / 137 ) و مسلم ( 3 / 75 ) و أحمد ( 5 / 152 ) عن زيد بن وهب
عن أبي ذر مرفوعا . و في رواية للبخاري : " ما يسرني أن عندي ... " ، و قد
مضى برقم ( 1028 ) . و له طريق أخرى بلفظ : " ما أحب أن لي مثل أحد ذهبا - أو
قال : ما أحب أن لي أحدا ذهبا - أدع منه يوم أموت دينارا أو نصف دينار إلا
لغريم " . أخرجه أحمد ( 5 / 160 - 161 و 176 ) و الخطيب ( 7 / 376 ) من طريق
شعبة عن عمرو بن مرة قال : سمعت سويد بن الحارث قال : سمعت أبا ذر قال : مرفوعا
به . و لفظ الخطيب : " ما يسرني " . و إسناده رجال الستة ، غير سويد هذا ، و قد
ذكره البخاري و لم يذكر فيه جرحا و تبعه ابن أبي حاتم . و له شاهد بلفظ : " و
ما أحب أن لي أحدا ذهبا ، يمر بي ثالثة عندي منه دينار إلا شيء أعده لغريم " .
أخرجه أحمد ( 2 / 506 ) : حدثنا يزيد أنبأنا ابن أبي ذئب عن أبي الوليد عن أبي
هريرة مرفوعا به . و هذا سند صحيح على شرط الستة و أبو الوليد اسمه عبد الله بن
الحارث البصري . و أخرجه ابن ماجة ( 4132 ) من طريق أبي سهيل بن مالك عن أبيه
عن أبي هريرة بلفظ : " إلا شيء أرصده في قضاء دين " . و سنده جيد .