تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) غزوہ بدراسلام اور کفر کا پہلا معرکہ تھا۔ جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اس جنگ میں شریک تھے وہ دوسرے صحابہ سے افضل ہیں۔ ان سب کے لئے جنت کی خوش خبری ہے۔ مشہور قول کے مطابق ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی تعداد تین سو تیرہ ہے۔
(2) 6 ہجری میں نبی کریمﷺ نے عمرے کا ارادہ فرمایا۔ چودہ سو صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین آپ ﷺ کی معیت میں مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ حدیبیہ کے مقام پرکافروں نے آپ کو روک دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا نمائندہ بنا کر مکہ بھیجا تاکہ روسائے قریش سے بات چیت کرکے انھیں رکاوٹ ختم کرنے پر آمادہ کریں۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی واپسی میں توقع سے زیادہ تاخیر ہوئی تو افواہ پھیل گئی کہ انھیں شہید کردیا گیا ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کےلئے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے بعیت لی جو بعیت رضوان کہلاتی ہے۔ یہ بعیت کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین بھی قطعی جنتی ہیں۔
(3) جہنم پر سے ہر ایک کو گزرنا ہے۔ مخلص اور نیک مومن اس سے پار ہوجایئں گے گناہ گار مومن گر جایئں گے۔ لیکن انبیاء اولیاء شہدا اور حفاظ قرآن وغیرہ کی شفاعت سے درجہ بدرجہ نجات پاکر جنت میں چلے جایئں گے۔
(4) آیت مبارکہ میں ظالموں سے مراد صریح کافر اوراعتقادی منافق ہیں جو ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
(5) قرآن مجید اور صحیح احادیث میں تعارض نہیں۔ جہاں بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے وہاں علمائے کرام دونوں نصوص کی اس انداز سے وضاحت فرما دیتے ہیں کہ تعارض نہیں رہتا۔نبی کریمﷺ بھی اسی طرح کرتے تھے۔
(6) قرآن یا حدیث کے سمجھنے میں کوئی اشکال ہو تو کسی عالم سے پوچھ لینا چاہیے اور عالم کو چاہیے کہ وضاحت کردے۔