تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) امامت ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ امام کو اس کا احساس کرنا چاہیے۔
(2) تربیت کے لئے نوجوانوں کوامام بنایا جاسکتا ہے۔
(3) افضل فرد کی موجودگی میں غیر افضل کی اقتداء میں نماز درست ہے۔
(4) اگر ایک شخص ذمے داری کا اہل ہونے کے باجود تواضعاً وہ ذمے داری نہ اٹھائے۔ جب کہ اس کام کے اہل دوسرے افراد موجود ہوں تو جائز ہے۔
(5) امام کی غلطی کی ذمہ داری مقتدیوں پر نہیں۔ تاہم اگر وہ اہلیت رکھنے والے کو چھوڑ کر ایسے شخص کو امام بنایئں گے۔ جو اس منصب کا اہل نہیں تو نا اہل امام کے تعین کی ذمہ دااری ان پر ہوگی۔
(6) مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ جیسا کہ ہمارے فاضل محقق نے لکھا ہے۔ لیکن دیگر شواہد کی بنا پر متناً و معناً صحیح ہے۔ غالباً اسی بنا پر شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اور دکتور بشارعواد نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (الصحیحة، رقم:1767 وسنن ابن ماجه بتحقیق دکتور بشارعواد، رقم:981)
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 366 :
أخرجه ابن ماجة ( 981 ) عن عبد الحميد بن سليمان أخي فليح حدثنا أبو حازم قال :
" كان سهل بن سعد الساعدي يقدم فتيان قومه يصلون بهم ، فقيل له : تفعل و لك
من القدم مالك ؟ قال : إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : فذكره .
قلت : و رجاله ثقات غير عبد الحميد بن سليمان ، فهو ضعيف . لكن الحديث صحيح ،
فإن قوله : " الإمام ضامن " قد جاء من حديث أبي هريرة و عائشة و هما مخرجان في
" صحيح أبي داود " ( 530 - 531 ) و من حديث أبي أمامة عند أحمد ( 5 / 260 )
بسند حسن . و الباقي جاء من حديث أبي هريرة مرفوعا بلفظ : " يصلون لكم ، فإن
أصابوا فلكم و لهم ، و إن أخطأوا فلكم و عليهم " . أخرجه البخاري و أحمد ( 2 /
355 ) و ابن حبان ( 375 ) نحوه . و له عنده ( 374 ) شاهد من حديث عقبة بن عامر
مرفوعا نحوه ، و هو مخرج في " صحيح أبي داود " ( 593 ) .