تشریح:
فوائد ومسائل: (1) رسول اللہﷺ نے ان تین راتوں میں مسجدمیں اجتماعی طور پر یہ قیام کراکے ثابت فرما دیا کہ یہ نماز(المعروف بہ تراویح) جماعت اور اجتماعیت کے ساتھ مستحب و مسنون ہے مگر فرض ہونےکے اندیشے سے آپ نے اس تسلسل کو قائم نہ رکھا۔
(2) امام کے ساتھ قیام مکمل کرلینے میں پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔ واللہ ذوالفضل العظیم۔
(3) اس روایت میں قیام کی رکعات کا ذکر نہیں تاہم حضرت جابر کی صراحت وارد ہے کہ (صلّٰی بِنا رسولُ اللہﷺ في شهرِ رمضانَ ثمانِ رکعاتٍ و أوتَرَ) رسول اللہﷺ نےہم کو ماہ رمضان میں آٹھ رکعات پڑھائیں اور وتر پڑھایا۔ یہ روایت طبرانی صغیر، مسندابی یعلیٰ قیام اللیل مروزی، صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان میں آئی ہے۔ اور علامہ ذہبی نے المیزان،ج:2ص:311 میں اس کی سند کو وسط کہا ہے۔۔۔۔۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح، وصححه الترمذي وابن حبان (2538) ) . إسناده: حدثنا مسدد. ثنا يزِيد بن زرَيْع: أخبرنا داود بن أبي هند عن الوليد بن عبد الرحمن عن جبَيْرٍ بن نفيْرٍ عن أبي ذًرً.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير مسدد، فهو من رجال البخاري وحده. والحديث أخرجه بقية أصحاب السنن وغيرهم من طرق أخرى عن داود بن أبي هند... به، وهو مخرج في رسالتي صلاد التراويح (ص 17) . ورواه ابن حبان أيضا (919) من ما هذا الوجه. وله طريق آخر في المسند (5/172) من طريق شرَيْحِ بن عُبَيْد الحضرمي يردُّه إلى أبي ذر... به نحوه؛ وفي آخره: يا أبا ذر! إنك إذا صليت مع إمامك، وانصرفت إذا انصرف؛ كُتِبَ لك قنوث ليلتك . ورجاله ثقات؛ لكنْ شريح لم يَلْقَ أبا ذر. وله شاهد في المستدرك (1/440) عن النعمان بن بشير... نحوه.