تشریح:
1: اکثر علما ء کے بیانات میں زوجین (میاں، بیوی ) کے آپس میں کفو ( ہم پلہ) ہونے کا ذکر آیا ہے اور ان امور کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ دین، آزادی، نسب، کسب وصناعت، عیوب سے سلامتی اور غنا وفراخی۔ مگر امام مالک ؒ سے منقول ہے کہ بنیادی طور پر دین واسلام میں ہم پلہ ہونا ہی معتبر ہے اور یہی بات حضرت ابن عمر اور ابن مسعود رضی اللہ اور تابعین سے محمد عبدالعزیز ؒ سے منقول ہے۔ قرآن کریم نے بڑے واضح انداز میں فرمایا کہ (إِنَّمَا المؤمِنونَ إِخوَةٌ) (الحجرات :10) مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں اور (وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ) (الحجرات:13) ہم نے تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے، تمہارے تعارف کے لئے۔ اللہ کے ہاں تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہی ہے جو تم میں تقو میں بڑھ کر ہے بعض افراد یا خاندانوں میں کچھ خاص عادات یا خصائل معروف ہوتے ہیں وی اگر قابل قبول ہوں اور گھریلو زندگی میں اطمینان وسکنیت میں رکاوٹ کا باعث نہ ہو ں تو انہیں باہم ازدواجی تعلق کے قیام میں کسی طرح رکاوٹ نہیں بنا نا چاہیے۔
2: ابو ہند (یسار رضی اللہ) غلام تھے۔ نبی ﷺ نے بنی بیاضہ جیسے عربی خاندان والوں کو فرمایا کہ اس کو رشتہ لے بھی لو اس واقعہ میں یہی ثابت ہوا کہ اصل کفاء ت دین کی کفاءت ہے دین کو پس پشت ڈال کر خاندانی اونچ نیچ کی کوئی حیثیت نہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وصححه ابن حبان والحاكم والذهبي) . إسناده: حدثنا عبد الواحد بن غياث: ثنا حماد: ثنا محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير عبد الواحد بن غياث، فهو صدوق. ومحمد بن عمرو أخرج له مسلم مقروناً، وهو حسن الحديث، كما تقدم مراراً. وقد صحح حديثه هذا الحاكم. ومن طريقه: أخرجه البيهقي (7/136) . وصححه ابن حبان أيضاً، وقد أخرجته في الأحاديث الصحيحة (2446) ، فلا نعيد تخريجه.