قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الصَّیامِ (بَابٌ فِي صَوْمِ الدَّهْرِ تَطَوُّعًا)

حکم : صحیح 

2425. حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ تَصُومُ؟ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِهِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عُمَرُ, قَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ، وَمِنْ غَضَبِ رَسُولِهِ، فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَدِّدُهَا، حَتَّى سَكَنَ غَضَبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الدَّهْرَ كُلَّهُ، قَالَ: لَا صَامَ، وَلَا أَفْطَرَ قَالَ مُسَدَّدٌ: لَمْ يَصُمْ، وَلَمْ يُفْطِرْ، أَوْ: >مَا صَامَ، وَلَا أَفْطَرَ، شَكَّ غَيْلَانُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ، وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟ قَالَ: >أَوَ يُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ؟، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَكَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟ قَالَ: ذَلِكَ صَوْمُ دَاوُدَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَكَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ؟ قَالَ: وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانُ، إِلَى رَمَضَانَ فَهَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ، وَصِيَامُ عَرَفَةَ, إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ، وَصَوْمُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ, إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ.

مترجم:

2425.

سیدنا ابوقتادہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا: اے اﷲ کے رسول! آپ روزے کس طرح رکھتے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ اس کی بات سے ناراض ہو گئے۔ جب سیدنا عمر ؓ نے یہ صورت حال دیکھی تو بولے: ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہیں، ہم اﷲ کی پناہ چاہتے ہیں کہ وہ ہم پر ناراض ہو یا اس کا رسول۔ اور سیدنا عمر ؓ اپنی یہ بات مسلسل دہراتے رہے حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کا غصہ زائل ہو گیا۔ پھر (سیدنا عمر ؓ نے) کہا: اے اﷲ کے رسول! وہ آدمی کیسا ہے جو ہمیشہ ہی روزے سے رہتا ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس نے روزہ رکھا نہ افطار کیا۔“ مسدد کے الفاظ تھے «لَمْ يَصُمْ، وَلَمْ يُفْطِرْ، أَوْ: مَا صَامَ، وَلَا أَفْطَرَ» یہ شک غیلان کو ہوا ہے۔ (سیدنا عمر ؓ نے) کہا: اے اﷲ کے رسول! وہ آدمی کیسا ہے جو دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے؟ آپ نے فرمایا: ”کیا بھلا کسی کو اس کی طاقت بھی ہے؟“ سیدنا عمر ؓ نے کہا: اے اﷲ کے رسول! اور وہ آدمی کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ سیدنا داود ؑ کا روزہ ہے۔“ انہوں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! اور وہ آدمی کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے؟ آپ نے فرمایا: ”میرا جی چاہتا ہے کہ مجھے اس کی طاقت دی جاتی۔“ پھر رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ”تین دن ہر مہینے میں اور رمضان سے رمضان تک، (ہر رمضان میں پورے روزے رکھنا) یہ صیام الدھر ہے۔ (سدا روزے سے رہنا ہے) اور عرفہ کا روزہ۔ میں اﷲ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اسے ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کا کفارہ بنا دے گا۔ اور عاشورہ محرم کا روزہ، میں اﷲ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اسے گزشتہ ایک سال کا کفارہ بنا دے گا۔“