کفار سے ایسا پیمان کہ ایک مدت تک کے لئے ہم آپس میں قتال نہیں کریں گے۔ جائز ہے مگر چاہیے کہ اس کی ابتداء اور مطالبہ کفار کی طرف سے ہو۔ مسلمانوں کا ابتدائی طور پر انہیں یہ پیش کش کرنا کسی طرح پسندیدہ نہیں۔ کیونکہ اس میں کمزوری اور ہتک کا اظہار ہے۔ اور لازمی ہے کہ صلح کے ساتھ ساتھ مسلمان اپنی تیاری سے غافل نہ رہیں۔ ممکن ہے کہ دشمن دھوکہ دے جائے۔ سورہ انفال میں اس امر کی مشروعیت کا بیان مذکورہ ہے۔ (وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔۔۔وَإِن يُرِيدُوا أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّـهُ ۚ)(الأنفال:61۔62) اگر وہ کفار صلح کی طرف مائل ہوں۔ تو آپ بھی اس کےلئے جھک جایئں اور اللہ پر توکل کریں۔ بلا شبہ وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔ اور اگر انہوں نے آپ کو دھوکا دینے کا ارادہ کیا ہو تو پھر اللہ آپ کےلئے کافی ہے۔۔۔ درج زیل حدیث میں صلح حدیبیہ کا واقعہ ہے جو یہاں مختصر ہے چاہیے کہ دیگر کتب حدیث وسیرت میں تفصیل سے اس کا مطالعہ کیا جائے۔ انتہائی جامع حدیث ہے۔ اور بے شمار مسائل کی حامل ہے۔ فوائد ومسائل۔ یہ حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔ ہر ذمہ دار شخص کو اس پر خوب غور کرنا چاہیے۔
1۔ مسلمان حکمران کی کافروں کے ساتھ صلح کے وقت سب سے پہلی ترجیح اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور عظمت ہونی چاہیے۔
2۔ مسنون یہ ہے کہ بیت اللہ کو روانہ کی جانے والی قربانی کے گلے می جوتوں کا ہار ڈال دیاجائے اور اونٹ یا اونٹنی ہو تو اس کے کوہان کی دایئں جانب ہلکا سا چیر لگا کر خون اس پر چپڑ دیا جائے۔ اس چیر لگانے کو اشعار کہتے ہیں۔
3۔ قصواء رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کا نام ولقب تھا۔ لفظی معنی ہیں۔ کان کٹی
4۔ ابرہہ کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ جس میں وہ ایک عظیم لائو لشکر اور ہاتھی لے کر آیا تھا۔ کہ بیت اللہ کو منہدم کردے۔ مگر اللہ کی تدبیر سے پرندوں کی سنگریزوں کی بارش سے سارا لشکر ہلاک ہو گیا۔ اور کعبہ اور مکہ دونوں محفوظ ومامون رہے۔
5۔ یعنی اللہ کے حرم میں قتل وغارت نہ ہو۔ اور دونوں قوموں کے مابین صلح ہوجائے۔
6۔ بدیل بن ورقہ نے رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو بطور خیر خواہی کے یہ خبر دی کہ کعب بن لوی اور عامر بن لوی اپنی تمام تر قوت کے ساتھ حدیبیہ کے پار مکہ کی جانب جنگ کے لئے تیار ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے بتایا کہ در اصل ہم لڑائی کے لئے آئے ہی نہیں ہیں۔ لیکن اگر مجبور کیا گیا۔ تو اس وقت تک لڑوں گا۔ جب تک اللہ اپنے اس دین اسلام کو غالب نہ فرما دے۔ یا میری گردن کٹ جائے اور جان چلی جائے۔
7۔ ا ہل عرب میں یہ رواج تھا کہ دو برابر کے ساتھی آپس میں گفتگو کے دوران میں دوسرے کو نرمی اور ملائمت پر آمادہ کرنے کےلئے یہ انداز اختیار کیا کرتے تھے۔ مگر حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واضح کردیا کہ تم ان کے برابر کے نہیں ہو۔ یہ تو افضل البشر ہیں۔
8۔ خطرے اور اظہار وجاہت کے موقع پر حفاظت وغیرہ کے لئے محافظوں کو کھڑا کرنا جائز اور مطلوب ہے۔ مگر جہاں کوئی معقول سبب نہ ہو وہاں لوگوں کو کھڑا کرنا تکبر میں شمار ہوتا ہے۔ اور ایک ناجائز عمل ہے۔
9۔ دھوکے فریب سے حاصل کردہ مال کسی صورت جائز نہیں۔ مگر دارالحرب اور قتال کی صورت میں حاصل ہونے والا مال غنیمت کہلاتا ہے۔
10۔ سہیل نے معاہدہ لکھتے وقت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پراعتراض کیا۔ کہ ہم الرحمٰن کو نہیں جانتے اور نبی کریم ﷺ کے متعلق محمد رسول اللہﷺ لکھنا بھی قبول نہیں کیا۔ مگر آپ نے شرعی مصلحت کے تحت اس کی یہ باتیں باوجود غلط ہونے کے گوارا کرلیں۔ اور باسمك اللهم اور محمد بن عبد اللہ لکھا گیا۔ اس نرم روی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد ازاں یہی لوگ اسلام لے آئے۔ اور اسلام کے فدا کار سپاہی ثابت ہوئے۔
11۔ ساحل سمند ر پر جمع ہونے والی یہ جماعت قریش کے قافلوں پرحملے کرتی۔ اور ان کے تجارتی قافلوں کےلئے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوئی بالآخر نے قریش نے درخواست کی کہ ہم اپنی اس شرط سے دستبردار ہوتے ہیں۔ کہ اہل مکہ میں سے مسلمان ہونے والے کو واپس کیا جائے۔ اس طرح ان لوگوں کو مدینے بلا لیا گیا۔