قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْجِهَادِ (بَابٌ فِي صُلْحِ الْعَدُوِّ)

حکم : صحیح 

2765.  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَوْرٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِذِي الْحُلَيْفَةِ, قَلَّدَ الْهَدْيَ، وَأَشْعَرَهُ، وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَةِ... وَسَاقَ الْحَدِيثَ. قَالَ: وَسَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِالثَّنِيَّةِ الَّتِي يَهْبِطُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا, بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ، فَقَالَ النَّاسُ: حَلْ حَلْ، خَلَأَتِ الْقَصْوَاءُ, مَرَّتَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >مَا خَلَأَتْ، وَمَا ذَلِكَ لَهَا بِخُلُقٍ، وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ<، ثُمَّ قَالَ: >وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يَسْأَلُونِي الْيَوْمَ خُطَّةً يُعَظِّمُونَ بِهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ، إِلَّا أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا<، ثُمَّ زَجَرَهَا فَوَثَبَتْ، فَعَدَلَ عَنْهُمْ، حَتَّى نَزَلَ بِأَقْصَى الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى ثَمَدٍ قَلِيلِ الْمَاءِ، فَجَاءَهُ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ الْخُزَاعِيُّ، ثُمَّ أَتَاهُ -يَعْنِي عُرْوَةَ بْنَ مَسْعُودٍ- فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكُلَّمَا كَلَّمَهُ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ- والْمُغِيَرةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَهُ السَّيْفُ وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ-، فَضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ، وَقَالَ: أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَتِهِ! فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَقَالَ: أَيْ غُدَرُ! أَوَلَسْتُ أَسْعَى فِي غَدْرَتِكَ؟ -وَكَانَ الْمُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَتَلَهُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ، ثُمَّ جَاءَ فَأَسْلَمَ-، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >أَمَّا الْإِسْلَامُ فَقَدْ قَبِلْنَا، وَأَمَّا الْمَالُ, فَإِنَّهُ مَالُ غَدْرٍ لَا حَاجَةَ لَنَا فِيهِ<... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >اكْتُبْ: هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ...<, وَقَصَّ الْخَبَرَ، فَقَالَ سُهَيْلٌ: >وَعَلَى أَنَّهُ لَا يَأْتِيكَ مِنَّا رَجُلٌ، وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ، إِلَّا رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْكِتَابِ, قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: >قُومُوا فَانْحَرُوا، ثُمَّ احْلِقُوا<، ثُمَّ جَاءَ نِسْوَةٌ مُؤْمِنَاتٌ مُهَاجِرَاتٌ، الْآيَةَ، فَنَهَاهُمُ اللَّهُ أَنْ يَرُدُّوهُنَّ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرُدُّوا الصَّدَاقَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَجَاءَهُ أَبُو بَصِيرٍ -رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ-, -يَعْنِي- فَأَرْسَلُوا فِي طَلَبِهِ، فَدَفَعَهُ إِلَى الرَّجُلَيْنِ، فَخَرَجَا بِهِ، حَتَّى إِذْ بَلَغَا ذَا الْحُلَيْفَةِ, نَزَلُوا يَأْكُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهُمْ، فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ لِأَحَدِ الرَّجُلَيْنِ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَى سَيْفَكَ هَذَا يَا فُلَانُ جَيِّدًا! فَاسْتَلَّهُ الْآخَرُ، فَقَالَ: أَجَلْ، قَدْ جَرَّبْتُ بِهِ، فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ: أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْهِ، فَأَمْكَنَهُ مِنْهُ، فَضَرَبَهُ حَتَّى بَرَدَ، وَفَرَّ الْآخَرُ حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ، فَدَخَلَ الْمَسجِدَ يَعْدُو، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >لَقَدْ رَأَى هَذَا ذُعْرًا<، فَقَالَ: قَدْ قُتِلَ –وَاللَّهِ- صَاحِبِي، وَإِنِّي لَمَقْتُولٌ، فَجَاءَ أَبُو بَصِيرٍ، فَقَالَ: قَدْ أَوْفَى اللَّهُ ذِمَّتَكَ، فَقَدْ رَدَدْتَنِي إِلَيْهِمْ، ثُمَّ نَجَّانِي اللَّهُ مِنْهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >وَيْلَ أُمِّهِ مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ كَانَ لَهُ أَحَدٌ!<، فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ, عَرَفَ أَنَّهُ سَيَرُدُّهُ إِلَيْهِمْ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى سَيْفَ الْبَحْرِ، وَيَنْفَلِتُ أَبُو جَنْدَلٍ، فَلَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ، حَتَّى اجْتَمَعَتْ مِنْهُمْ عِصَابَةٌ.

مترجم:

2765.

سیدنا مسور بن مخرمہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حدیبیہ کے موقع پر چودہ، پندرہ سو صحابہ کی معیت میں روانہ ہوئے۔ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو آپ ﷺ نے اپنی قربانی کو قلادہ پہنایا اور اس کے کوہان پر چیر لگایا (اشعار کیا) اور عمرے کا احرام باندھا۔ اور حدیث بیان کی۔ نبی کریم ﷺ روانہ ہوئے حتیٰ کہ جب اس گھاٹی پر پہنچے جہاں سے اہل مکہ کی طرف اترتے ہیں تو آپ ﷺ کی سواری بیٹھ گئی۔ لوگوں نے کہا: «حل حل» (اونٹ کو اٹھانے کی آواز ہے) قصواء بگڑ گئی ہے (یا اڑ گئی ہے) دو بار کہا  نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”یہ نہ بگڑی ہے اور نہ اس کی یہ عادت ہے، اسے ہاتھی کو روکنے والے نے روکا ہے۔“ پھر فرمایا قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ لوگ آج مجھے جو بھی کوئی ایسی تجویز پیش کریں گے جس سے وہ اللہ کی حرمتوں کی تعظیم بجا لائیں تو میں اسے قبول کر لوں گا۔“ پھر آپ ﷺ نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ پھر آپ ﷺ نے ان کی طرف سے راستہ تبدیل کر لیا حتی کہ حدیبیہ کے پارایک کنویں پر جا اترے، اس میں پانی بہت تھوڑا تھا، پھر آپ ﷺ کے پاس بدیل بن ورقاء خزاعی آیا۔ اس کے بعد عروہ بن مسعود آیا اور نبی کریم ﷺ سے گفتگو کرنے لگا۔ وہ جب بھی آپ ﷺ سے بات کرتا تو آپ ﷺ کی داڑھی مبارک پر ہاتھ پھیرتا۔ مغیرہ بن شعبہ ؓ آپ ﷺ کے ساتھ ہی کھڑے تھے، ان کے ہاتھ میں تلوار اور سر پر خود تھی، (عروہ آپ ﷺ سے بات کرتے ہوئے آپ ﷺ کی داڑھی پر ہاتھ لگاتا تو) وہ اپنی تلوار کا دستہ اس کے ہاتھ پر دے مارتے اور کہتے، دور کر اپنا ہاتھ ان کی داڑھی سے۔ عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا یہ کون ہے؟ حاضرین نے کہا: یہ مغیرہ بن شعبہ ہیں تو وہ بولا: اے دھوکے باز! کیا میں تیرے دھوکے اور فساد میں صلح صفائی نہیں کراتا رہا ہوں؟ (دراصل) مغیرہ ؓ قبل از اسلام کچھ لوگوں کے ساتھ تھے تو ان کو قتل کر دیا، ان کے مال لوٹ لیے، پھر جا کر اسلام قبول کر لیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اسلام تو ہم نے قبول کر لیا مگر مال چونکہ دھوکے کا ہے اس لیے ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔“ اور حدیث بیان کی۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”لکھو یہ وہ (عہد نامہ) ہے جس پر محمد رسول اللہ (ﷺ) نے اتفاق کیا ہے۔“ اور پورا قصہ بیان کیا۔ سہیل نے کہا: اور ہم میں سے جو کوئی بھی آپ کے پاس آئے خواہ وہ آپ کے دین ہی پر کیوں نہ ہو وہ آپ کو ہماری طرف واپس کرنا ہو گا۔ پھر جب عہد نامے کی تحریر سے فارغ ہو گئے تو نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ”اٹھو! قربانیاں کرو اور اپنے سر مونڈ لو۔‘‘ پھر مومن اور مہاجر عورتیں آئیں (تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں. سورۃ الممتحنہ) تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ انہیں واپس نہیں لوٹانا، البتہ یہ حکم دیا کہ ان کے حق مہر واپس کر دیے جائیں۔ پھر آپ ﷺ مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ قریش کا ایک آدمی ابوبصیر، آپ ﷺ کے پاس آ گیا۔ تو ان لوگوں نے اس کو لینے کے لیے اپنے دو آدمی بھیج دیے۔ نبی کریم ﷺ نے اسے ان کے حوالے کر دیا۔ وہ اس لے کر چلے گئے حتیٰ کہ جب ذوالحلیفہ مقام پر پہنچے تو انہوں نے وہاں پڑاؤ کیا اور اپنی کھجوریں کھانے لگے۔ ابوبصیر نے ان میں سے ایک کو کہا: ارے! تیری یہ تلوار تو بہت عمدہ دکھائی دیتی ہے۔ اس نے اسے میان سے نکالا اور کہا: ہاں ہاں میں نے اس کو بہت آزمایا ہے۔ ابوبصیر نے کہا: دکھانا ذرا، میں اسے دیکھوں تو سہی۔ اور وہ اس نے اس کو پکڑا دی۔ پس ابوبصیر نے وہ اسے دے ماری حتیٰ کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا۔ اور اس کے ساتھ والا دوسرا آدمی بھاگ کر مدینے آ گیا اور بھاگتے بھاگتے مسجد میں چلا آیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”(یہ خوف زدہ ہے) اس نے کوئی خوفناک چیز دیکھی ہے۔“ وہ بولا اللہ کی قسم میرا ساتھی قتل کر دیا گیا ہے اور میں بھی مارا جانے والا ہوں۔ پھر ابوبصیر بھی آ گیا تو اس نے کہا: اللہ نے آپ کی ذمہ داری پوری کرا دی کہ آپ ﷺ نے مجھے ان کے حوالے کر دیا تھا، پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دے دی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اس کی ماں کا افسوس! یہ تو جنگ کی آگ بھڑکانے والا ہے اگر کوئی اسے مل جائے۔“ جب اس نے یہ سنا تو سمجھ گیا کہ آپ ﷺ اسے ان لوگوں کی طرف لوٹا دیں گے۔ سو وہ وہاں سے نکل کھڑا ہوا اور ساحل سمندر پر آ گیا۔ پھر ابوجندل بھی نکل بھاگا اور ابوبصیر کے ساتھ جا ملا حتیٰ کہ وہاں ایک جماعت اکٹھی ہو گئی۔