تشریح:
1۔ ان سیدات کو اگرکچھ ملتا تو خمس سے ملتا، مگرشائد غنائم وغیرہ کے ساتھ وہ سب بھی شہدائے بدر کے یتیم بچوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔
2۔ نبی کریم ﷺ مادی تعاون کےمعاملے میں زیادہ ضرورت مندوں خصوصا شہداء کے اہل وعیال کو اولیت دیا کرتے تھے۔ اور اپنے عزیزواقارب کے متعلق آپﷺ کی ترجیح یہی تھی کہ وہ بقدر گزران اور قناعت کی زندگی گزاریں۔
3۔ سیدات اہل بیت عام مسلمانوں کی خواتین حتیٰ کہ امہات المومنین سبھی اپنے اپنے گھروں میں گھرداری کے تمام کام سر انجام دیتی تھیں۔ بعض فقہاء کا یہ کہنا کہ بیوی پر اپنے شوہر کی دلداری کے علاوہ اور کچھ واجب نہیں۔ (خیرالقرون کے اس تعامل کے اور آئندہ حدیث میں مذکور رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے خلاف ہے۔
4۔ اللہ کا زکراوراس کی پابندی دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں خیروبرکات کاباعث ہے جبکہ خادم کا فائدہ صرف دنیا تک ہی محدود ہے۔ اور آخرت میں جوابدہی کا معاملہ اس پر مستزاد ہے۔
5۔ اس روایت میں یہ نکتہ بھی ہے کہ دن بھر کی محنت سے جو تکان لاحق ہوتی ہے۔ اس کا ازالہ خادم ہونے کی صورت میں اس سے جو راحت مل سکتی ہے۔ ویسی ہی راحت ان تسبیحات سے بھی مل سکتی ہے۔