قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الطَّهَارَةِ (بَابُ التَّيَمُّمِ فِي الْحَضَرِ)

حکم : ضعيف 

330. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَوْصِلِيُّ أَبُو عَلِيٍّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَابِتٍ الْعَبْدِيُّ أَخْبَرَنَا نَافِعٌ قَالَ انْطَلَقْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي حَاجَةٍ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقَضَى ابْنُ عُمَرَ حَاجَتَهُ فَكَانَ مِنْ حَدِيثِهِ يَوْمَئِذٍ أَنْ قَالَ مَرَّ رَجُلٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سِكَّةٍ مِنْ السِّكَكِ وَقَدْ خَرَجَ مِنْ غَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ حَتَّى إِذَا كَادَ الرَّجُلُ أَنْ يَتَوَارَى فِي السِّكَّةِ ضَرَبَ بِيَدَيْهِ عَلَى الْحَائِطِ وَمَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ ثُمَّ ضَرَبَ ضَرْبَةً أُخْرَى فَمَسَحَ ذِرَاعَيْهِ ثُمَّ رَدَّ عَلَى الرَّجُلِ السَّلَامَ وَقَالَ إِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرُدَّ عَلَيْكَ السَّلَامَ إِلَّا أَنِّي لَمْ أَكُنْ عَلَى طُهْرٍ قَالَ أَبُو دَاوُد سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ ثَابِتٍ حَدِيثًا مُنْكَرًا فِي التَّيَمُّمِ قَالَ ابْنُ دَاسَةَ قَالَ أَبُو دَاوُد لَمْ يُتَابَعْ مُحَمَّدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ عَلَى ضَرْبَتَيْنِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَوَوْهُ فِعْلَ ابْنِ عُمَرَ

مترجم:

330.

جناب نافع بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عمر ؓ کے ساتھ ایک کام کے لیے سیدنا ابن عباس ؓ کے ہاں گیا، تو ابن عمر ؓ نے اپنا کام پورا کر لیا۔ اس دن ان کی باتوں میں سے ایک یہ تھی کہ ایک گلی میں ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا جبکہ آپ پیشاب یا پاخانے سے فارغ ہو کر آئے تھے، تو اس نے آپ کو سلام کہا، مگر آپ نے جواب نہ دیا، حتیٰ کہ جب وہ گلی میں آنکھوں سے اوجھل ہونے کے قریب ہوا، تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ دیوار پر مارے اور اپنے چہرے پر پھیرے، پھر دوسری بار مارے اور اپنی کلائیوں پر پھیرے تب اس کے سلام کا جواب دیا، اور فرمایا ”تیرے سلام کا جواب نہ دینے کی وجہ صرف یہ تھی کہ میں طاہر نہ تھا۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل کو سنا، وہ کہتے تھے کہ محمد بن ثابت نے تیمم کے بارے میں ایک ”منکر“ حدیث روایت کی ہے، ابن داسہ کہتے ہیں کہ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: محمد بن ثابت کی اس قصے میں کسی نے متابعت (تائید) نہیں کی کہ ”نبی کریم ﷺ نے دو دفعہ مارے۔“ بلکہ اسے سیدنا ابن عمر کا فعل بیان کیا گیا ہے۔