تشریح:
1: مجوسی دوالہوں کے قائل ہیں، ایک خالق خیر سے وہ یزواں کہتے ہیں اور دوسرا خالق شر جسے وہ اہرمن کا نام دیتے ہیں، اسی طرح تقدیر کے منکر خیرکو اللہ کی اور شر کو غیر اللہ کی خلق سمجھتے ہیں، حالانکہ خلق اور ایجاد میں اللہ عزوجل کا کوئی شریک وسہیم نہیں ہے، نہ کوئی اس پر غالب ہے، اس نے اپنی حکمت کے تحت شر اور شیطان کو پیدا کیا ہے اور انسان اللہ عزوجل کی مشیت اور ارادے کے معنی ہمیشہ رضامندی الگ الگ دوچیزیں ہیں۔ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ یقینامشیت الہی ہی سے ہوتا ہے، اس کے بغیر اچھا یا برا کوئی کام بھی نہیں ہوتا، لیکن یہ ضروری نہیں کہ اللہ تعالی کا پسندیدہ بھی ہو۔ اللہ تعالی کو تو صرف وہی کام پسند ہیں جن کے کرنے کااس نے حکم دیا ہے۔ باقی کام ناپسندیدہ ہیں گو ہوتے وہ بھی اس کی مشیت ہی سے ہیں۔
2: اسلامی معاشرے میں شرعی اقدار کا تحفظ کرنے کےلئے ضروری ہے کہ ملحد اور بد عقیدہ کوگوں سے مقاطعہ کیا جائے تاکہ صاحب ایمان کی غیرت کا اظہار ہو اور انہیں مومنین سے جدا ہونے کا احساس رہے، مگر اہل علم پر لازم ہے کہ ان کے سامنے حق کا اظہار اور ان غلطیوں کی نشاندہی کریں۔
3: بعض حضرات نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔