قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ السُّنَّةِ (بَابٌ فِي الْمَسْأَلَةِ فِي الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ)

حکم : صحیح 

4753. حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ح، وحَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَهَذَا لَفْظُ هَنَّادٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنِ الْمِنْهَالِ، عَنْ زَاذَانَ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَبْرِ، وَلَمَّا يُلْحَدْ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، كَأَنَّمَا عَلَى رُءُوسِنَا الطَّيْرُ, وَفِي يَدِهِ عُودٌ يَنْكُتُ بِهِ فِي الْأَرْضِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: >اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ<- مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا-، زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ هَاهُنَا وَقَالَ: >وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ حِينَ يُقَالُ لَهُ: يَا هَذَا مَنْ رَبُّكَ؟ وَمَا دِينُكَ؟ وَمَنْ نَبِيُّكَ؟<، قَالَ هَنَّادٌ قَالَ: >وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: دِينِيَ الْإِسْلَامُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ قَالَ: فَيَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولَانِ: وَمَا يُدْرِيكَ؟ فَيَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ، فَآمَنْتُ بِهِ، وَصَدَّقْتُ- زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ:- فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا}[إبراهيم: 27], الْآيَةُ،- ثُمَّ اتَّفَقَا-: >قَالَ فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ قَدْ صَدَقَ عَبْدِي فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، قَالَ: فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا، وَطِيبِهَا، قَالَ: وَيُفْتَحُ لَهُ فِيهَا مَدَّ بَصَرِهِ<. قَالَ: >وَإِنَّ الْكَافِرَ- فَذَكَرَ مَوْتَهُ، قَالَ-: وَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ، وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ، هَاهْ، هَاهْ، لَا أَدْرِي! فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ، هَاهْ، لَا أَدْرِي! فَيَقُولَانِ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ، هَاهْ، لَا أَدْرِي فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ كَذَبَ، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ<. قَالَ: >فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا وَسَمُومِهَا<، قَالَ: >وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ- زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ- قَالَ ثُمَّ يُقَيَّضُ لَهُ أَعْمَى أَبْكَمُ مَعَهُ مِرْزَبَّةٌ مِنْ حَدِيدٍ، لَوْ ضُرِبَ بِهَا جَبَلٌ لَصَارَ تُرَابًا<، قَالَ: >فَيَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً يَسْمَعُهَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ فَيَصِيرُ تُرَابًا<. قَالَ: >ثُمَّ تُعَادُ فِيهِ الرُّوحُ<.

مترجم:

4753.

سیدنا براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں گئے۔ ہم قبر کے پاس پہنچے تو ابھی لحد تیار نہیں ہوئی تھی، تو رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے اردگرد بیٹھ گئے۔ گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں (نہایت پر سکون اور خاموشی سے بیٹھے تھے۔) آپ ﷺ کے ہاتھ میں چھڑی تھی، آپ ﷺ اس سے زمین کرید رہے تھے۔ آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: ”اللہ سے قبر کے عذاب کی امان مانگو۔“ آپ ﷺ نے یہ دو یا تین بار فرمایا۔ جریر کی روایت میں یہاں یہ اضافہ ہے ”جب لوگ واپس جاتے ہیں تو میت ان کے قدموں کی آہٹ سنتی ہے، جبکہ اس سے یہ پوچھا جا رہا ہوتا ہے: اے فلاں! تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ اور تیرا نبی کون ہے؟ ہناد نے کہا: فرمایا: ”اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے۔ پھر وہ پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟ تو وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔ پھر وہ پوچھتے ہیں: یہ آدمی کون ہے جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا؟ تو وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں: تجھے کیسے علم ہوا؟ وہ کہتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، میں اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی۔“ جریر کی روایت میں مزید ہے: ”یہی (سوال جواب ہی) مصداق ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان کا {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا} پھر وہ دونوں روایت کرنے میں متفق ہیں۔ فرمایا: ”پھر آسمان سے منادی کرنے والا اعلان کرتا ہے: تحقیق میرے بندے نے سچ کہا ہے، اسے جنت کا بستر بچھا دو، اور اس کو جنت کا لباس پہنا دو، اور اس کے لیے جنت کی طرف سے دروازہ کھول دو۔“ فرمایا: ”جنت کی طرف سے وہاں کی ہوائیں، راحتیں اور خوشبو آنے لگتی ہیں اور اس کی قبر کو انتہائے نظر تک وسیع کر دیا جاتا ہے۔ ”پھر کافر اور اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا: اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور وہ اس کے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے: ہاہ! ہاہ! مجھے خبر نہیں۔ پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ تو وہ کہتا ہے: ہاہ! ہاہ! مجھے خبر نہیں۔ پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں: یہ آدمی کون ہے جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا؟ تو وہ کہتا ہے: ہاہ! ہاہ! مجھے خبر نہیں۔ تو منادی آسمان سے ندا دیتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا، اسے آگ کا بستر بچھا دو، اسے آگ کا لباس پہنا دو اور اس کے لیے دوزخ کی طرف سے دروازہ کھول دو۔ فرمایا کہ پھر اس جہنم کی طرف سے اس کی تپش اور سخت گرم ہوا آنے لگتی ہے اور اس پر قبر کو تنگ کر دیا جاتا ہے حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں۔“ جریر کی روایت میں مزید ہے ”پھر اس پر ایک اندھا گونگا فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے، جس کے پاس بھاری گرز ہوتا ہے۔ اگر اسے پہاڑ پر مار جائے تو وہ (پہاڑ) مٹی مٹی ہو جائے۔ پھر وہ اسے اس کے ساتھ ایسی چوٹ مارتا ہے جس کی آواز جنوں اور انسانوں کے علاقہ مشرق و مغرب کے درمیان ساری مخلوق سنتی ہے۔ اور پھر وہ مٹی (ریزہ ریزہ) ہو جاتا ہے۔ ”فرمایا: پھر اس میں روح لوٹائی جاتی ہے۔“