قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ (بَابُ إِكْرَامِ الضَّيْفِ وَفَضْلِ إِيثَارِهِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2055. حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ الْمِقْدَادِ قَالَ أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِي وَقَدْ ذَهَبَتْ أَسْمَاعُنَا وَأَبْصَارُنَا مِنْ الْجَهْدِ فَجَعَلْنَا نَعْرِضُ أَنْفُسَنَا عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْهُمْ يَقْبَلُنَا فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقَ بِنَا إِلَى أَهْلِهِ فَإِذَا ثَلَاثَةُ أَعْنُزٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَلِبُوا هَذَا اللَّبَنَ بَيْنَنَا قَالَ فَكُنَّا نَحْتَلِبُ فَيَشْرَبُ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنَّا نَصِيبَهُ وَنَرْفَعُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصِيبَهُ قَالَ فَيَجِيءُ مِنْ اللَّيْلِ فَيُسَلِّمُ تَسْلِيمًا لَا يُوقِظُ نَائِمًا وَيُسْمِعُ الْيَقْظَانَ قَالَ ثُمَّ يَأْتِي الْمَسْجِدَ فَيُصَلِّي ثُمَّ يَأْتِي شَرَابَهُ فَيَشْرَبُ فَأَتَانِي الشَّيْطَانُ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَقَدْ شَرِبْتُ نَصِيبِي فَقَالَ مُحَمَّدٌ يَأْتِي الْأَنْصَارَ فَيُتْحِفُونَهُ وَيُصِيبُ عِنْدَهُمْ مَا بِهِ حَاجَةٌ إِلَى هَذِهِ الْجُرْعَةِ فَأَتَيْتُهَا فَشَرِبْتُهَا فَلَمَّا أَنْ وَغَلَتْ فِي بَطْنِي وَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَيْسَ إِلَيْهَا سَبِيلٌ قَالَ نَدَّمَنِي الشَّيْطَانُ فَقَالَ وَيْحَكَ مَا صَنَعْتَ أَشَرِبْتَ شَرَابَ مُحَمَّدٍ فَيَجِيءُ فَلَا يَجِدُهُ فَيَدْعُو عَلَيْكَ فَتَهْلِكُ فَتَذْهَبُ دُنْيَاكَ وَآخِرَتُكَ وَعَلَيَّ شَمْلَةٌ إِذَا وَضَعْتُهَا عَلَى قَدَمَيَّ خَرَجَ رَأْسِي وَإِذَا وَضَعْتُهَا عَلَى رَأْسِي خَرَجَ قَدَمَايَ وَجَعَلَ لَا يَجِيئُنِي النَّوْمُ وَأَمَّا صَاحِبَايَ فَنَامَا وَلَمْ يَصْنَعَا مَا صَنَعْتُ قَالَ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ كَمَا كَانَ يُسَلِّمُ ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى ثُمَّ أَتَى شَرَابَهُ فَكَشَفَ عَنْهُ فَلَمْ يَجِدْ فِيهِ شَيْئًا فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقُلْتُ الْآنَ يَدْعُو عَلَيَّ فَأَهْلِكُ فَقَالَ اللَّهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي وَأَسْقِ مَنْ أَسْقَانِي قَالَ فَعَمَدْتُ إِلَى الشَّمْلَةِ فَشَدَدْتُهَا عَلَيَّ وَأَخَذْتُ الشَّفْرَةَ فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْأَعْنُزِ أَيُّهَا أَسْمَنُ فَأَذْبَحُهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هِيَ حَافِلَةٌ وَإِذَا هُنَّ حُفَّلٌ كُلُّهُنَّ فَعَمَدْتُ إِلَى إِنَاءٍ لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانُوا يَطْمَعُونَ أَنْ يَحْتَلِبُوا فِيهِ قَالَ فَحَلَبْتُ فِيهِ حَتَّى عَلَتْهُ رَغْوَةٌ فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَشَرِبْتُمْ شَرَابَكُمْ اللَّيْلَةَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اشْرَبْ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اشْرَبْ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي فَلَمَّا عَرَفْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَوِيَ وَأَصَبْتُ دَعْوَتَهُ ضَحِكْتُ حَتَّى أُلْقِيتُ إِلَى الْأَرْضِ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَى سَوْآتِكَ يَا مِقْدَادُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَانَ مِنْ أَمْرِي كَذَا وَكَذَا وَفَعَلْتُ كَذَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا هَذِهِ إِلَّا رَحْمَةٌ مِنْ اللَّهِ أَفَلَا كُنْتَ آذَنْتَنِي فَنُوقِظَ صَاحِبَيْنَا فَيُصِيبَانِ مِنْهَا قَالَ فَقُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُبَالِي إِذَا أَصَبْتَهَا وَأَصَبْتُهَا مَعَكَ مَنْ أَصَابَهَا مِنْ النَّاسِ

مترجم:

2055.

شبابہ بن سوار نے کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے ثابت سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ سے، انھوں نے حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، سیدنا مقداد رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے دونوں ساتھی آئے اور (فاقہ وغیرہ کی) تکلیف سے ہماری آنکھوں اور کانوں کی قوت جاتی رہی تھی۔ ہم اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب پر پیش کرتے تھے لیکن کوئی ہمیں قبول نہ کرتا تھا۔ آخر ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ ہمیں اپنے گھر لے گئے۔ وہاں تین بکریاں تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کا دودھ دوہو، ہم تم سب پئیں گے، پھر ہم ان کا دودھ دوہا کرتے اور ہم میں سے ہر ایک اپنا حصہ پی لیتا اور رسول اللہ ﷺ کا حصہ رکھ چھوڑتے۔ آپ ﷺ رات کو تشریف لاتے اور ایسی آواز سے سلام کرتے، جس سے سونے والا نہ جاگے اور جاگنے والا سن لے۔ پھر آپ ﷺ مسجد میں آتے، نماز پڑھتے، پھر اپنے دودھ کے پاس آتے اور اس کو پیتے۔ ایک رات جب میں اپنا حصہ پی چکا تھا کہ شیطان نے مجھے بھڑکایا۔ شیطان نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ تو انصار کے پاس جاتے ہیں، وہ آپ ﷺ کو تحفے دیتے ہیں اور جو آپ ﷺ کو ضرورت ہے، مل جاتا ہے، آپ ﷺ کو اس ایک گھونٹ دودھ کی کیا ضرورت ہو گی؟ آخر میں آیا اور وہ دودھ پی گیا۔ جب دودھ پیٹ میں سما گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب وہ دودھ نہیں ملنے کا تو اس وقت شیطان نے مجھے ندامت کی اور کہنے لگا کہ تیری خرابی ہو تو نے کیا کام کیا؟ تو نے رسول اللہ ﷺ کا حصہ پی لیا، اب آپ ﷺ آئیں گے اور دودھ کو نہ پائیں گے تو تجھ پر بددعا کریں گے اور تیری دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوں گی۔ میں ایک چادر اوڑھے ہوئے تھا، جب اس کو پاؤں پر ڈالتا تو سر کھل جاتا اور جب سر ڈھانپتا تو پاؤں کھل جاتے تھے اور مجھے نیند بھی نہ آ رہی تھی، جبکہ میرے ساتھی سو گئے، اور انہوں نے یہ کام نہیں کیا تھا، جو میں نے کیا تھا۔ آخر رسول اللہ ﷺ آئے اور معمول کے موافق سلام کیا، پھر مسجد میں آئے اور نماز پڑھی، اس کے بعد دودھ کے پاس آئے، برتن کھولا تو اس میں کچھ نہ تھا۔ آپ ﷺ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، میں سمجھا کہ اب آپ ﷺ بددعا کرتے ہیں اور میں تباہ ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! کھلا اس کو جو مجھے کھلائے اور پلا اس کو جو مجھے پلائے۔ یہ سن کر میں نے اپنی چادر کو مضبوط باندھا، چھری لی اور بکریوں کی طرف چلا کہ جو ان میں سے موٹی ہو اس کو رسول اللہ ﷺ کے لئے ذبح کروں۔ دیکھا تو اس کے تھن میں دودھ بھرا ہوا ہے۔ پھر دیکھا تو اور بکریوں کے تھنوں میں بھی دودھ بھرا ہوا ہے۔ میں نے آپ ﷺ کے گھر والوں کا ایک برتن لیا، جس میں وہ دودھ نہ دوہتے تھے (یعنی اس میں دوہنے کی خواہش نہیں کرتے تھے)۔ اس میں میں نے دودھ دوہا، یہاں تک کہ اوپر جھاگ آ گیا (اتنا بہت دودھ نکلا) اور میں اس کو لے کر آپ ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے اپنے حصے کا دودھ رات کو پیا یا نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ دودھ پیجئے۔ آپ ﷺ نے پی کر مجھے دیا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اور پیجئے۔ آپ ﷺ نے اور پیا۔ پھر مجھے دیا، جب مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ ﷺ سیر ہو گئے اور آپ ﷺ کی دعا میں نے لے لی ہے، تب میں ہنسا، یہاں تک کہ خوشی کے مارے زمین پر گر گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے مقداد! تو نے کوئی بری بات کی؟ وہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا حال ایسا ہوا اور میں نے ایسا قصور کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اس وقت کا دودھ (جو خلاف معمول اترا) اللہ کی رحمت تھی۔ تو نے مجھ سے پہلے ہی کیوں نہ کہا ہم اپنے دونوں ساتھیوں کو بھی جگا دیتے کہ وہ بھی یہ دودھ پیتے؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپ ﷺ کو سچا کلام دے کر بھیجا ہے کہ اب مجھے کوئی پرواہ نہیں جب آپ نے اللہ کی رحمت حاصل کر لی اور میں نے آپ ﷺ کے ساتھ حاصل کی تو کوئی بھی اس کو حاصل کرے۔