قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِي ذَرٍّ ؓ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2473. حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: خَرَجْنَا مِنْ قَوْمِنَا غِفَارٍ، وَكَانُوا يُحِلُّونَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ، فَخَرَجْتُ أَنَا وَأَخِي أُنَيْسٌ وَأُمُّنَا، فَنَزَلْنَا عَلَى خَالٍ لَنَا، فَأَكْرَمَنَا خَالُنَا وَأَحْسَنَ إِلَيْنَا، فَحَسَدَنَا قَوْمُهُ فَقَالُوا: إِنَّكَ إِذَا خَرَجْتَ عَنْ أَهْلِكَ خَالَفَ إِلَيْهِمْ أُنَيْسٌ، فَجَاءَ خَالُنَا فَنَثَا عَلَيْنَا الَّذِي قِيلَ لَهُ، فَقُلْتُ: أَمَّا مَا مَضَى مِنْ مَعْرُوفِكَ فَقَدْ كَدَّرْتَهُ، وَلَا جِمَاعَ لَكَ فِيمَا بَعْدُ، فَقَرَّبْنَا صِرْمَتَنَا، فَاحْتَمَلْنَا عَلَيْهَا، وَتَغَطَّى خَالُنَا ثَوْبَهُ فَجَعَلَ يَبْكِي، فَانْطَلَقْنَا حَتَّى نَزَلْنَا بِحَضْرَةِ مَكَّةَ، فَنَافَرَ أُنَيْسٌ عَنْ صِرْمَتِنَا وَعَنْ مِثْلِهَا، فَأَتَيَا الْكَاهِنَ، فَخَيَّرَ أُنَيْسًا، فَأَتَانَا أُنَيْسٌ بِصِرْمَتِنَا وَمِثْلِهَا مَعَهَا قَالَ: وَقَدْ صَلَّيْتُ، يَا ابْنَ أَخِي قَبْلَ أَنْ أَلْقَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثِ سِنِينَ، قُلْتُ: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ، قُلْتُ: فَأَيْنَ تَوَجَّهُ؟ قَالَ: أَتَوَجَّهُ حَيْثُ يُوَجِّهُنِي رَبِّي، أُصَلِّي عِشَاءً حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ أُلْقِيتُ كَأَنِّي خِفَاءٌ، حَتَّى تَعْلُوَنِي الشَّمْسُ. فَقَالَ أُنَيْسٌ: إِنَّ لِي حَاجَةً بِمَكَّةَ فَاكْفِنِي، فَانْطَلَقَ أُنَيْسٌ حَتَّى أَتَى مَكَّةَ، فَرَاثَ عَلَيَّ، ثُمَّ جَاءَ فَقُلْتُ: مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: لَقِيتُ رَجُلًا بِمَكَّةَ عَلَى دِينِكَ، يَزْعُمُ أَنَّ اللهَ أَرْسَلَهُ، قُلْتُ: فَمَا يَقُولُ النَّاسُ؟ قَالَ: يَقُولُونَ: شَاعِرٌ، كَاهِنٌ، سَاحِرٌ، وَكَانَ أُنَيْسٌ أَحَدَ الشُّعَرَاءِ. قَالَ أُنَيْسٌ: لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكَهَنَةِ، فَمَا هُوَ بِقَوْلِهِمْ، وَلَقَدْ وَضَعْتُ قَوْلَهُ عَلَى أَقْرَاءِ الشِّعْرِ، فَمَا يَلْتَئِمُ عَلَى لِسَانِ أَحَدٍ بَعْدِي، أَنَّهُ شِعْرٌ، وَاللهِ إِنَّهُ لَصَادِقٌ، وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ. قَالَ: قُلْتُ: فَاكْفِنِي حَتَّى أَذْهَبَ فَأَنْظُرَ، قَالَ فَأَتَيْتُ مَكَّةَ فَتَضَعَّفْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَقُلْتُ: أَيْنَ هَذَا الَّذِي تَدْعُونَهُ الصَّابِئَ؟ فَأَشَارَ إِلَيَّ، فَقَالَ: الصَّابِئَ، فَمَالَ عَلَيَّ أَهْلُ الْوَادِي بِكُلٍّ مَدَرَةٍ وَعَظْمٍ، حَتَّى خَرَرْتُ مَغْشِيًّا عَلَيَّ، قَالَ: فَارْتَفَعْتُ حِينَ ارْتَفَعْتُ، كَأَنِّي نُصُبٌ أَحْمَرُ، قَالَ: فَأَتَيْتُ زَمْزَمَ فَغَسَلْتُ عَنِّي الدِّمَاءَ: وَشَرِبْتُ مِنْ مَائِهَا، وَلَقَدْ لَبِثْتُ، يَا ابْنَ أَخِي ثَلَاثِينَ، بَيْنَ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ، مَا كَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ، فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِي، وَمَا وَجَدْتُ عَلَى كَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ قَالَ فَبَيْنَا أَهْلِ مَكَّةَ فِي لَيْلَةٍ قَمْرَاءَ إِضْحِيَانٍ، إِذْ ضُرِبَ عَلَى أَسْمِخَتِهِمْ، فَمَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ أَحَدٌ. وَامْرَأَتَانِ مِنْهُمْ تَدْعُوَانِ إِسَافًا، وَنَائِلَةَ، قَالَ: فَأَتَتَا عَلَيَّ فِي طَوَافِهِمَا فَقُلْتُ: أَنْكِحَا أَحَدَهُمَا الْأُخْرَى، قَالَ: فَمَا تَنَاهَتَا عَنْ قَوْلِهِمَا قَالَ: فَأَتَتَا عَلَيَّ فَقُلْتُ: هَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَةِ، غَيْرَ أَنِّي لَا أَكْنِي فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلَانِ، وَتَقُولَانِ: لَوْ كَانَ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا قَالَ فَاسْتَقْبَلَهُمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَهُمَا هَابِطَانِ، قَالَ: «مَا لَكُمَا؟» قَالَتَا: الصَّابِئُ بَيْنَ الْكَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا، قَالَ: «مَا قَالَ لَكُمَا؟» قَالَتَا: إِنَّهُ قَالَ لَنَا كَلِمَةً تَمْلَأُ الْفَمَ، وَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى اسْتَلَمَ الْحَجَرَ، وَطَافَ بِالْبَيْتِ هُوَ وَصَاحِبُهُ، ثُمَّ صَلَّى فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ - قَالَ أَبُو ذَرٍّ - فَكُنْتُ أَنَا أَوَّلَ مَنْ حَيَّاهُ بِتَحِيَّةِ الْإِسْلَامِ، قَالَ فَقُلْتُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ فَقَالَ: «وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللهِ» ثُمَّ قَالَ «مَنْ أَنْتَ؟» قَالَ قُلْتُ: مِنْ غِفَارٍ، قَالَ: فَأَهْوَى بِيَدِهِ فَوَضَعَ أَصَابِعَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: كَرِهَ أَنِ انْتَمَيْتُ إِلَى غِفَارٍ، فَذَهَبْتُ آخُذُ بِيَدِهِ، فَقَدَعَنِي صَاحِبُهُ، وَكَانَ أَعْلَمَ بِهِ مِنِّي، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ قَالَ: «مَتَى كُنْتَ هَاهُنَا؟» قَالَ قُلْتُ قَدْ كُنْتُ هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ، قَالَ: «فَمَنْ كَانَ يُطْعِمُكَ؟» قَالَ قُلْتُ: مَا كَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِي، وَمَا أَجِدُ عَلَى كَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ، قَالَ: «إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ، إِنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ» فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللهِ ائْذَنْ لِي فِي طَعَامِهِ اللَّيْلَةَ، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَانْطَلَقْتُ مَعَهُمَا، فَفَتَحَ أَبُو بَكْرٍ بَابًا، فَجَعَلَ يَقْبِضُ لَنَا مِنْ زَبِيبِ الطَّائِفِ وَكَانَ ذَلِكَ أَوَّلَ طَعَامٍ أَكَلْتُهُ بِهَا، ثُمَّ غَبَرْتُ مَا غَبَرْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «إِنَّهُ قَدْ وُجِّهَتْ لِي أَرْضٌ ذَاتُ نَخْلٍ، لَا أُرَاهَا إِلَّا يَثْرِبَ، فَهَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي قَوْمَكَ؟ عَسَى اللهُ أَنْ يَنْفَعَهُمْ بِكَ وَيَأْجُرَكَ فِيهِمْ» فَأَتَيْتُ أُنَيْسًا فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: صَنَعْتُ أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، قَالَ: مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكَ، فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، فَأَتَيْنَا أُمَّنَا، فَقَالَتْ: مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكُمَا، فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، فَاحْتَمَلْنَا حَتَّى أَتَيْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا، فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمْ وَكَانَ يَؤُمُّهُمْ أَيْمَاءُ بْنُ رَحَضَةَ الْغِفَارِيُّ وَكَانَ سَيِّدَهُمْ. وَقَالَ نِصْفُهُمْ: إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَسْلَمْنَا، فَقَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمُ الْبَاقِي وَجَاءَتْ أَسْلَمُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ إِخْوَتُنَا، نُسْلِمُ عَلَى الَّذِي أَسْلَمُوا عَلَيْهِ، فَأَسْلَمُوا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «غِفَارُ غَفَرَ اللهُ لَهَا، وَأسْلَمُ سَالَمَهَا اللهُ»،

مترجم:

2473.

ہداب بن خالد ازدی نے کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث بیان کی، کہا، ہمیں حمید بن ہلال نے عبداللہ بن صامت سے خبر دی، انہوں نے کہا، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ہم اپنی قوم بنوغفار کے ہاں سے نکلے۔ وہ لوگ حرمت والے مہینے کو حلال سمجھتے تھے۔ میں، میرا بھائی انیس اور میری ماں تینوں اترے اور اپنے ماموں کے پاس جا اترے، ہمارے ماموں نے ہماری عزت اور خاطر و مدارت کی، ان کی قوم ہم سے حسد کرنے لگی، انہوں نے (ماموں سے) کہا: جب تم اپنی بیوی کو چھوڑ کر جاتے ہوتو انیس ان لوگوں کے پاس آ جاتا ہے، پھر ہمارا ماموں آیا اور اس نے وہ ساری برائی ہم پر ڈال دی جو اسے بتائی گئی تھی۔ میں نے کہا: سابقہ حسن سلوک جو تم نے ہمارے ساتھ کیا، تم نے اسے مکدر (گدلا) کر دیا۔ اب اس کے بعد تمہارے ساتھ مل کر رہنا (ممکن) نہیں۔ پھر ہم اپنے اونٹوں کے پاس آئے اور (سامان وغیرہ لاد کر) ان پر سوار ہو گئے۔ ہمارے ماموں نے اپنا کپڑا اوڑھ لیا اور رونا شروع کر دیا، پھر ہم چل پڑے اور مکہ کے پاس (آکر) اتر گئے۔ اور (میرے بھائی) انیس نے ہمارے اور اتنے بڑے اونٹوں کے (دوسرے شخص کے) گلےکی شرط پر (کہ جو جیتا دونوں گلے اسی کو مل جائیں گے، کسی آدمی سے) منافرت (شعروں میں اپنے اپنے قبیلے اور آباءو اجداد کے کارناموں پر فخر میں مسابقت) کی، دونوں (فیصلے کے لیے) ایک کاہن کے پاس آئے (اس نے دونوں قصائد سن کر) انیس کو ترجیح دی، تو انیس اونٹوں کے اپنے گلے اور اس کے ساتھ اس جیسے ایک اور گلے سمیت (واپس ہمارے پاس) آیا۔ انہوں نے کہا: بھتیجے میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ملاقات سے تین سال پہلے (سے لے کر ) نماز پڑھی۔ میں نے پوچھا: کس کے لیے (نماز پڑھی؟) انہوں نے کہا: اللہ کے لیے۔ میں نے کہا: آپ کس طرف منہ کرتے تھے؟ کہا: جس طرف میرا رب میرا رخ کر دیتا تھا، میں اسی طرف منہ کر لیتا تھا۔ میں رات کو نماز پڑھتا تھا یہاں تک کہ جب رات کا آخری حصہ آ جاتا تو میں اس طرح گر جاتا جیسے میں ایک چادر ہوں، (جس میں کوئی حرکت نہ ہو) یہاں تک کہ مجھ پر دھوپ آ جاتی۔ پھر انیس نے کہا: مجھے مکہ میں ایک کام ہے، تم میری ذمہ داری سنبھال لو۔ انیس روانہ ہوا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا تو اس نے میرے پاس لوٹنے میں بہت دیر لگا دی، پھر وہ آیا تو میں نے پوچھا: تم نے (وہاں) کیا کیا؟ اس نے کہا: میں مکہ میں اس شخص سے ملا جو تمہارے دین پر ہے، وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے اللہ نے رسول بنایا ہے۔ میں نے کہا: لوگ کیا کہتے ہیں؟ کہا: لوگ کہتے ہیں وہ شاعر ہے، کاہن ہے، جادوگر ہے،اور انیس (خود بھی) ایک شاعر تھا۔ انیس نے کہا: میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے۔ وہ (قرآن جو وہ پیش کرتے ہیں) کاہنوں کا قول نہیں ہے۔ میں نے ان کے (پیش کردہ) قول کا سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شعر سے موازنہ کیا ہے۔ میرے اور (میرے علاوہ) کسی اور کی زبان پر یہ بات نہیں سجتی کہ وہ شعر ہے۔ اللہ کی قسم! وہ سچے ہیں اور بے شک وہ (سب لوگ جو انہیں نہیں مانتے) جھوٹے ہیں۔ (ابو ذررضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا:  میں نے (اس سے) کہا: اب میری طرف سے تو (سب کام) سنبھال تاکہ میں جاؤں اور دیکھوں۔ کہا پھر میں مکہ آیا تو  میں نے ان میں سے ایک کمزور ترین آدمی ڈھونڈا اور کہا: وہ شخص کہاں ہے جسے تم صابی (اپنے باپ دادا کے دین سے نکلا ہوا) کہتے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کیا: یہ صالی ہے، تو ساری وادی کے لوگ مٹی کا ہر ڈھیلا اور ہر ہڈی لے کر مجھ پر پل پڑے یہاں تک کہ میں بے ہوش ہو گر گیا۔ کہا پھر جب میں اٹھا تو اس طرح اٹھا جیسے میں (اپنے ہی خون میں ڈوبا ہوا) ایک سرخ رنگ کا بت ہوں۔ کہا: پھر میں زمزم کے پا س آیا اور اپنے آپ سے خون دھویا اور اس (زمزم) کا پانی پیا۔ اور میں، میرے بھتیجے! تیس دن اور راتوں کے درمیان رہا کہ میرے پاس زمزم کے سوا کوئی کھانا نہ تھا، تو (بھی) میں فربہ ہو گیا حتی کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں ٹوٹ گئیں (پیٹ تن گیا) اور مجھے اپنے جگر میں بھوک کی کوئی اذیت (بھی) محسوس نہ ہوئی۔ کہا: پھر جب اہل مکہ پر ایک روشن چاندنی رات طاری تھی کہ ان کے کانوں کو بند کر دیا گیا (گہری نیند میں چلے گئے) تو کوئی شخص بھی بیت اللہ کا طواف نہیں کر رہا تھا، ان میں سے (بس) جو عورتیں تھیں جو اساف اور نائلہ کو پکارتی جا رہی تھیں۔ (ابوذررضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: وہ اپنے طواف میں میرے پاس سے گزریں تو میں نے کہا: ان میں سے ایک کا دوسری سے نکاح تو کرا دو۔ کہا: پھر بھی وہ (ان بتوں کو پکارتے ہوئے) جو کچھ کہہ رہی تھیں اس سے باز نہ آئیں۔ وہ پھر (دوسری بار) میرے پاس سے گزریں تو میں نے کہا: لکڑی جیسی شرمگاہیں ہیں لیکن میں (اس وقت اشارے) کنائے میں بات نہیں کر رہا تھا (صریح گالی دی) وہ دونوں چیخ کر مجھے کوستی ہوئی چلی گئیں: کاش! یہاں ہمارے مردوں میں سے کوئی ہوتا۔ کہا: آگے سے ان دونوں کو رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ ملے، وہ دونوں اترتے ہوئے آ رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم دونوں کو کیا ہوا؟‘‘ انہوں نے کہا: کعبہ اور اس کے پردوں کے درمیان ایک بے دین چھپا ہوا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اس نے تم دونوں کو کیا کہا؟‘‘ وہ کہنے لگیں: اس نے ہم سے ایسی بات کہی ہے جو منہ کوبھر (بند کر) دیتی ہے۔ رسول اللہﷺ (آگے) آئے یہاں تک کہ حجر اسود کو بوسہ دیا اور آپ ﷺ نے اور آپ کے ساتھی نے بیت اللہ کا طواف کیا، پھر نماز پڑھی۔ جب آپ نے نماز پڑھ لی۔ ابو ذررضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: تو میں پہلا شخص تھا جس نے آپ ﷺ کو اسلام کے مطابق سلام کیا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! السلام علیک (آپ پر سلامتی ہو!) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اور تم پر بھی (سلامتی ہو) اور اللہ کی رحمت ہو!‘‘ پھر آپ نے پوچھا: ’’تم کون ہو؟‘‘ میں نے کہا: میں قبیلہ غفار سے ہوں۔ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور ( تعجب سے) اپنی انگلیاں اپنی پیشانی پر رکھ لیں۔ میں نے دل میں کہا: آپﷺ کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ میں نے اپنی نسبت غفار کی طرف کی ہے۔ میں نے آپﷺ کا ہاتھ تھامنے کے لیے آگے بڑھا تو ان کے ساتھی نے مجھے روک دیا۔ وہ آپﷺ کے مجھ سے زیادہ جانتے تھے، پھر آپ نے سر مبارک اٹھایا اور پوچھا: ’’تم کب سے یہاں تھے؟‘‘ کہا: (رات اور دن گنیے تو دونوں ملا کر) تیس شب و روز سے یہاں ہوں۔ آپ نے کہا: ’’تو تمہیں کھانا کون کھلاتا  تھا؟‘‘ کہا: میں نے کہا زمزم کے پانی کے سوا میری کوئی غذا نہ تھی- تو (اسی سے) میں موٹا ہو گیا ہوں حتی کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں ٹوٹ گئی ہیں اور میں اپنے جگر میں بھوک کی کوئی تکلیف (تک) محسوس نہیں کرتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ بہت برکت والا (پانی) ہے، یہ کھانے کا  کھانا ہے۔‘‘ تو ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے: اللہ کےرسول ﷺ! اس کے آج رات کے کھانے ( انتظام) کی مجھے اجازت دیجیے۔ رسول اللہ ﷺ اور ابو بکررضی اللہ تعالی عنہ چل پڑے۔ میں بھی ان دونوں کے ساتھ چل پڑا۔ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے دروازہ کھولا اور ہمارے لیے طائف کی کشمش کی مٹھیاں بھر بھر کر نکالنے لگے۔ تو یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے وہاں (مکہ میں) کھایا، پھر میں وہاں رہا جتنا عرصہ رہا، پھر میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے (ہجرت کے لیے) کھجوروں والی ایک زمین کی سمت بتائی گئی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہ یثرب ہے کیا تم میری طرف سے اپنی قوم تک میرا پیغام پہنچا دو گے؟ اللہ تعالی  جلد ہی انہیں تمہارے ذریعے سےفائدہ پہنچائے گا اور ان کے معاملے میں تمہیں اجر سے نوازےگا۔‘‘ اس کے بعد میں (اپنے بھائی)  انیس کے پاس آیا اس نے پوچھا تم نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میں نے یہ کیا ہے  کہ میں اسلام لے آیا ہوں اور (رسول اللہ ﷺ اور آپﷺ کے دین کی) تصدیق کی ہے۔ اس نے کہا: مجھے تمہارے دین سے کوئی پرہیز نہیں، اس لیے میں بھی اسلام لاتا ہوں اور تصدیق کرتا ہوں، پھر ہم اپنی ماں کے پاس آئے تو اس نے بھی کہا: مجھے تمہارے دین سے کوئی پرہیز نہیں، میں بھی اسلام لاتی ہوں اور تصدیق کرتی ہوں، پھر ہم سوار ہو گئے اور اپنی قوم غفار میں پہنچ گئے، ان میں سے (بھی) آدھے لوگ مسلمان ہو گئے ۔ ان کی امامت ایماء بن رحضہ غفاری کرتے تھے، وہ ان کے سردار تھے۔ اور ان میں سے باقی آدھے لوگوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ آئیں گے تو ہم بھی اسلام قبول کر لیں گے۔ پھر رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لے آئےتو ان میں سے باقی آدھے بھی مسلمان ہو گئے۔ (پھر) قبیلہ اسلم آیا، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول یہ  (بنو غفار) ہمارے بھائی ہیں، جس طرح یہ اسلا م لائےاسی طرح ہم بھی اسلام لاتے ہیں، وہ سب (بھی) مسلمان ہو گئے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’غفار! اللہ اس کی مغفرت فرمائےاور اسلم! اللہ اس کو سلامتی سے نوازے۔‘‘