قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ (بَابُ ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2931. حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ التُّجِيبِيُّ أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ انْطَلَقَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ حَتَّى وَجَدَهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ يَوْمَئِذٍ الْحُلُمَ فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِابْنِ صَيَّادٍ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَرَفَضَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاذَا تَرَى قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ هُوَ الدُّخُّ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ذَرْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ

مترجم:

2931.

یونس نے ابن شہاب سے روایت کی کہ سالم بن عبداللہ نے انہیں بتایا،  انہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے خبر دی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ابن صیاد کی طرف گے، آپﷺ نے اسے بنو مغالہ کے اونچے مکانوں کے پاس لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا، اس وقت ابن صیاد بلوغت کے قریب تھا، اسے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا) پتہ نہ چلا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کمر پر اپنا ہاتھ مارا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد سے  فرمایا: ’’کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں‘‘ ابن صیاد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا، تو کہا: میں گواہی دیتا ہوں آپ امیوں (عربوں) کے رسول ہیں، پھر ابن  صیاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار کیا اور فرمایا: ’’میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ہوں‘‘ پھر رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہیں کیا نظر آتا ہے؟‘‘ ابن صیاد  نے کہا: میرے پاس ایک سچا آتا ہے اور ایک جھوٹا شخص آتا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ’’تجھ پر معاملہ گڈمڈ کر دیا گیا ہے،‘‘ پھر اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے تجھ سے پوچھنے کے لئے دل میں ایک چیز چھپائی ہے‘‘ ابن صیاد نے کہا: وہ ’’دُخ‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ’’دور دفع ہو جا۔ تو اپنی حیثیت سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔‘‘ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں، رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ وہی (دجال) ہے تو تمہیں اس پر مسلط نہیں کیا جائے گا، اور  اگر وہ نہیں ہے، تو اس کو قتل کرنے میں تمہارے لئے کوئی بھلائی نہیں۔‘‘