قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ جَامِعِ صَلَاةِ اللَّيْلِ، وَمَنْ نَامَ عَنْهُ أَوْ مَرِضَ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

746. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ أَنَّ سَعْدَ بْنَ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ أَرَادَ أَنْ يَغْزُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ فَأَرَادَ أَنْ يَبِيعَ عَقَارًا لَهُ بِهَا فَيَجْعَلَهُ فِي السِّلَاحِ وَالْكُرَاعِ وَيُجَاهِدَ الرُّومَ حَتَّى يَمُوتَ فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ لَقِيَ أُنَاسًا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فَنَهَوْهُ عَنْ ذَلِكَ وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَهْطًا سِتَّةً أَرَادُوا ذَلِكَ فِي حَيَاةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَاهُمْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ أَلَيْسَ لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ فَلَمَّا حَدَّثُوهُ بِذَلِكَ رَاجَعَ امْرَأَتَهُ وَقَدْ كَانَ طَلَّقَهَا وَأَشْهَدَ عَلَى رَجْعَتِهَا فَأَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَالَ عَائِشَةُ فَأْتِهَا فَاسْأَلْهَا ثُمَّ ائْتِنِي فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْكَ فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهَا فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا فَقَالَ مَا أَنَا بِقَارِبِهَا لِأَنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا فَأَبَتْ فِيهِمَا إِلَّا مُضِيًّا قَالَ فَأَقْسَمْتُ عَلَيْهِ فَجَاءَ فَانْطَلَقْنَا إِلَى عَائِشَةَ فَاسْتَأْذَنَّا عَلَيْهَا فَأَذِنَتْ لَنَا فَدَخَلْنَا عَلَيْهَا فَقَالَتْ أَحَكِيمٌ فَعَرَفَتْهُ فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَتْ مَنْ مَعَكَ قَالَ سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ قَالَتْ مَنْ هِشَامٌ قَالَ ابْنُ عَامِرٍ فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ وَقَالَتْ خَيْرًا قَالَ قَتَادَةُ وَكَانَ أُصِيبَ يَوْمَ أُحُدٍ فَقُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قُلْتُ بَلَى قَالَتْ فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ قَالَ فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ وَلَا أَسْأَلَ أَحَدًا عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَمُوتَ ثُمَّ بَدَا لِي فَقُلْتُ أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ أَلَسْتَ تَقْرَأُ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُلْتُ بَلَى قَالَتْ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا وَأَمْسَكَ اللَّهُ خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا فِي السَّمَاءِ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ التَّخْفِيفَ فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ فَرِيضَةٍ قَالَ قُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ مَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنْ اللَّيْلِ فَيَتَسَوَّكُ وَيَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهَا إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ فَيَذْكُرُ اللَّهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّ التَّاسِعَةَ ثُمَّ يَقْعُدُ فَيَذْكُرُ اللَّهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ وَهُوَ قَاعِدٌ وَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَا بُنَيَّ فَلَمَّا سَنَّ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَهُ اللَّحْمُ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَنَعَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِثْلَ صَنِيعِهِ الْأَوَّلِ فَتِلْكَ تِسْعٌ يَا بُنَيَّ وَكَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا وَكَانَ إِذَا غَلَبَهُ نَوْمٌ أَوْ وَجَعٌ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ صَلَّى مِنْ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً وَلَا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ وَلَا صَلَّى لَيْلَةً إِلَى الصُّبْحِ وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ قَالَ فَانْطَلَقْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا فَقَالَ صَدَقَتْ لَوْ كُنْتُ أَقْرَبُهَا أَوْ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّى تُشَافِهَنِي بِهِ قَالَ قُلْتُ لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهَا مَا حَدَّثْتُكَ حَدِيثَهَا و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى الْمَدِينَةِ لِيَبِيعَ عَقَارَهُ فَذَكَرَ نَحْوَهُ و حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّهُ قَالَ انْطَلَقْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ الْوِتْرِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ وَقَالَ فِيهِ قَالَتْ مَنْ هِشَامٌ قُلْتُ ابْنُ عَامِرٍ قَالَتْ نِعْمَ الْمَرْءُ كَانَ عَامِرٌ أُصِيبَ يَوْمَ أُحُدٍ و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ كِلَاهُمَا عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى أَنَّ سَعْدَ بْنَ هِشَامٍ كَانَ جَارًا لَهُ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ سَعِيدٍ وَفِيهِ قَالَتْ مَنْ هِشَامٌ قَالَ ابْنُ عَامِرٍ قَالَتْ نِعْمَ الْمَرْءُ كَانَ أُصِيبَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ وَفِيهِ فَقَالَ حَكِيمُ بْنُ أَفْلَحَ أَمَا إِنِّي لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهَا مَا أَنْبَأْتُكَ بِحَدِيثِهَا

مترجم:

746.

ابن ابی عدی نے سعید (ابن ابی عروبہ) سے، انھوں نے قتادہ سے اور انھوں نے زرارہ سے روایت کیا کہ (حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریبی عزیز) سعد بن ہشام بن عامر نے ارادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ (جہاد) کریں، وہ مدینہ منورہ آ گئے اور وہاں ا پنی ایک جائیداد فروخت کرنی چاہی تاکہ اس سے ہتھیار اور گھوڑے مہیا کریں اور موت آنے تک رومیوں کے خلاف جہاد کریں، چنانچہ جب مدینہ آئے تو اہل مدینہ میں سے کچھ لوگوں سے ملے، انھوں نے اس کو اس ارادے سے روکا اور ان کو بتایا کہ چھ افراد کے ایک گروہ نے نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ میں ایسا کرنے کا ارادہ کیا تھا تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں روک دیا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا تھا: ’’کیا میرے طرز عمل میں تمھارے لئے نمونہ نہیں ہے؟‘‘ چنانچہ جب ان لوگوں نے انھیں یہ بات بتائی تو انھوں نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا جبکہ وہ اسے طلاق دے چکے تھے، اور اس سے رجو ع کے لئے گواہ بنائے۔ پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے رسول اللہ ﷺ کے وتر (بشمول قیام اللیل) کے بارے میں سوال کیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: کیا میں تمھیں اس ہستی سے آگاہ نہ کروں، جو روئے زمین کے تمام لوگوں کی نسبت ر سول اللہ ﷺ کے وتر کو زیادہ جاننے والی ہے؟ سعد نے کہا: وہ کون ہیں؟ انھوں نےکہا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کے پاس جاؤ اور پوچھو، پھر(دوبارہ) میرے پاس آنا اور ان کا جواب مجھے بھی آ کر بتانا، (سعدنے کہا:) میں ان کی طرف چل پڑا اور(پہلے) حکیم بن افلح کے پاس آیا اور انھیں اپنے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چلنے کو کہا تو انھوں نے کہا: میں ان کے پاس نہیں جاؤں گا کیونکہ میں نے انھیں (آپس میں لڑنے والی) ان دو جماعتوں کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے روکا تھا۔ تو وہ ان دونوں کے بارے میں اسی طریقے پر چلتے رہنے کے سوا اور کچھ نہ مانیں۔ (سعد نے) کہا: تو میں نے انھیں قسم دی تو وہ آ گئے، پس ہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف چل پڑے، اور ان سے حاضری کی اجازت طلب کی، انھوں نے اجازت مرحمت فرما دی اور ہم ان کے گھر (دروازے) میں داخل ہوئے، انھوں نے کہا: کیا حکیم ہو؟ انہوں نے اسے پہچان لیا، اس نے کہا: جی ہاں۔ تو انھوں نے کہا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: سعد بن ہشام۔ انھوں نے پوچھا: ہشام کون؟ اس نے کہا: عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بن امیہ انصاری) کے بیٹے۔ تو انہوں نے ان کے لئے رحمت کی دعا کی اور کلمات خیر کہے۔ قتادہ نے کہا: وہ (عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے۔ میں نے کہا: ام المومنین! مجھے رسول اللہ ﷺ کے خلق مبارک کے بارے میں بتایئے۔ انھوں نے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! انھوں نے کہا: اللہ کے نبی ﷺ کا اخلاق قرآن ہی تھا (آپﷺ کی سیرت وکردار قرآن کا عملی نمونہ تھی) کہا: اس پر میں نے یہ چاہا کہ اٹھ (کر چلا) جاؤں اور موت تک کسی سے کچھ نہ پوچھوں، پھر اچانک ذہن میں آیا تو میں نے کہا مجھے رسول اللہ ﷺ کے (رات کے) قیام کے بارے میں بتائیں، تو انھوں نے کہا: کیا تم ﴿يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ﴾ نہیں پڑ ھتے؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں!انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آغاز میں رات کا قیام فرض قرار دیا تو نبی کریم ﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں نے سال بھر قیام کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آخری آیات بارہ ماہ تک آسمان پر روکے رکھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخر میں تخفیف کا حکم نازل فرمایا تو رات کا قیام فرض ہونے کے بعد نفل (میں تبدیل) ہو گیا۔ سعد نے کہا: میں نے عرض کیا: اے ام المومنین! مجھے رسول اللہ ﷺ کے وتر کے بارے میں بتایئے۔ تو انھوں نے کہا: ہم آپ ﷺ کے لئے آپﷺ کی مسواک اور آپﷺ کے وضو کا پانی تیار کر کے رکھتے تھے اللہ تعالیٰ رات کو جب چاہتا، آپﷺ کو بیدار کر دیتا تو آپﷺ مسواک کرتے، وضو کرتے اور پھر نو رکعتیں پڑھتے، ان میں آپﷺ آٹھویں کے علاوہ کسی رکعت میں نہ بیٹھتے، پھر اللہ کا ذکر کرتے، اس کی حمد بیان کرتے اور دعا فرماتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو جاتے، پھر کھڑے ہو کر نویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے اللہ کا ذکر اور حمد کرتے اور اس سے دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جو ہمیں سناتے پھر سلام کے بعد بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے، تو میرے بیٹے! یہ گیارہ رکعتیں ہو گئیں۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک بڑھی اور(جسم پر کسی حد تک) گوشت چڑھ گیا (جسم مبارک بھاری ہو گیا) تو آپﷺ سات وتر پڑھنے لگ گئے اور دو رکعتوں میں وہی کرتے جو پہلے کرتے تھے (بیٹھ کر پڑھتے) تو بیٹا! یہ نو رکعتیں ہو گئیں اور اللہ کے نبی ﷺ جب کوئی نماز پڑھتے تو آپﷺ پسند کرتے کہ اس پر قائم رہیں اور جب نیند یا بیماری غالب آ جاتی اور رات کا قیام نہ کر سکتے تو آپﷺ دن کو بارہ رکعتیں پڑھ لیتے۔ میں نہیں جانتی کہ اللہ کے نبی کریم ﷺ نے بھی پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو اور نہ ہی آپﷺ نے کسی رات صبح تک نماز پڑھی اور نہ رمضان کے سوا کبھی پورے مہینے کے روزے رکھے۔ (سعد نے) کہا: پھر میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف گیا اور انھیں ان (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی حدیث سنائی تو انھوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سچ کہا، اگر میں ان کے قریب ہوتا یا ان کے گھر جاتا ہوتا تو ان کے پاس جاتا تاکہ وہ مجھے یہ حدیث رو برو سناتیں۔ (سعد نے) کہا: میں نےکہا: اگر مجھے علم ہوتا ہے کہ آپ ان کے ہاں حاضر نہیں ہوتے تو میں آپ کو ان کی حدیث نہ سناتا (یہ سعد بالآخر سرزمین ہند میں شہید ہوئے)۔